سرکاری ملازمین کے بچوں کی کوٹے پر بھرتیوں سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس نعیم اختر افغان نے تمام پالیسیز اور پیکیجز کے کوٹے غیر آئینی قرار دیدیے ہیں۔سپریم کورٹ میں جی پی او کی اپیل منظور کرلی گئی جبکہ پشاور ہائیکورٹ کا 2021ء کا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا ہے۔کوٹے سے متعلق پرائم منسٹر پیکیج فار ایمپلائمنٹ پالیسی، اس کا آفس میمورنڈم اور سندھ سول سرونٹس رولز 1974ء کے سیکشن 11 اے کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا سرول سرونٹس رولز 1989ء کا سیکشن 10 ذیلی شق 4 اور بلوچستان سرول سرونٹس رول 2009ء کی شق 12 کالعدم قرار دی گئی ہیں۔ کوٹا سسٹم کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے عدالت نے اشتہاریا اوپن میرٹ کے بغیر سرکاری ملازمین کے بچوں کو ملازمتیں دینے کی پالیسی ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں یہ پالیسی ختم کریں، عدالتی فیصلے کا اطلاق پہلے سے سرکاری ملازمین کے بچوں کو ملنے والے کوٹے پر نہیں ہوگا۔ فیصلے کا اطلاق دہشت گردی کے واقعات میں شہید افراد کے ورثاء پر نہیں ہوگا۔ عرصہ دراز سے یہی سسٹم چلا آرہا ہے کہ سرکاری ملازمت کرنے والے کی اگر طبعی موت واقع ہو جائے یا وہ کسی حادثے میں جاں بحق ہو جاتا ہے تو اس کے کسی وارث کو اس ملازمت پر رکھ لیا جاتا ہے چاہے وہ اس نوکری کے لیے اہل ہو یا نہیں۔ بھرتی ہونے والا نااہل سسٹم کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ سرکاری ملازم کی موت کے بعد اگر اس کے خاندان کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں تو اس کی کفالت کابندوبست کرنا بے شک ریاست کی ذمہ داری ہے، اگر وارث میرٹ پر پورا نہیں اترتا ہو تو ریاست اسے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کروا کر اس کے خاندان کی کفالت کا بندوبست کر سکتی ہے ۔ بہتر ہے کہ خالی اسامی کی تشہیر کرکے میرٹ پر پُر کیا جائے جس کے لیے متاثرہ خاندان کا اہل شخص بھی درخواست دے سکتا ہے۔ کوٹا سسٹم کے تحت صرف متاثرین کو ہی نوازنا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ سپریم کورٹ کا یہ اچھا فیصلہ ہے، اس سے سرکاری ملازمین کے بچوں کے علاوہ میرٹ پر پورا اترنے والے نوجوانوں کو بھی ملازمت کے مواقع میسر آسکیں گے۔