اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کی عدالت میں زیر سماعت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی جیل سے رہائی اور وطن واپسی کے کیس میں عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ حکومت پاکستان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا معافی کے لیے امریکی صدر کو خط لکھ دیا ہے۔ عافیہ صدیقی ایک عرصے سے ناکردہ گناہوں کی سزا امریکی جیل میں بھگت رہی ہیں۔ جس دورانیے میں عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کیا گیا یہ صدر پرویز مشرف کی آمریت کا دور تھا۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ہم نے کئی پاکستانیوں کو امریکا کے حوالے کرنے کے بدلے میں ڈالر لیے تھے۔ امریکا کو شک تھا کہ عافیہ صدیقی امریکی مفادات کے خلاف کام کر رہی تھیں۔ امریکی قوانین کے تحت ان کو 86 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اتنی تو پوری دنیا کے کسی ملک میں اوسط عمر بھی نہیں ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہے ہیں۔جب امریکا کو پاکستان کی اشد ضرورت تھی اس موقع پر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا جا سکتا تھا۔مشرف سے تو ایسی توقع نہیں تھی مگر اس کے بعد بھی عافیہ کی رہائی کے لیے حکومتی سطح پر جو اقدامات کیے جانے چاہئیں تھے وہ نہیں کیے گئے۔ گزشتہ روز دوران سماعت مذکورہ خط بھی عدالت پیش کیا گیا جس میں وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی صدر کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا معافی اور رہائی کی درخواست کرتے ہوئے کہاکہ میری آپ سے امریکا اور میرے آبائی شہر لاہور میں ملاقات ہوئی، میں نے آپ کو ہمیشہ پاکستان اور اس کے عوام کا دوست پایا۔میں آپ کی توجہ اس اہم معاملے کی طرف دلانا چاہتا ہوں جسے ہمدردی کی بنیاد پر دیکھا جانا چاہیے۔ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے خط کی حد تک وزیراعظم نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔ اس کے ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر بھی سرگرم ہونے کی ضرورت ہے۔ شہباز شریف کے امریکی انتظامیہ اور جوبائیڈن کے ساتھ ذاتی مراسم اور رابطے بھی ہیں ان کو بھی عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے بروئے کار لایا جائے تو جلد رہائی ممکن ہوسکتی ہے۔