آئینی ترامیم: خصوصی کمیٹی میں مسودہ اتفاقِ رائے سے منظور

آئینی ترامیم پیکیج کا مسودہ مشاورت کے لیے قائم خصوصی کمیٹی نے اتفاقِ رائے سے منظور کر لیا ہے۔ کمیٹی کا ان کیمرا اجلاس خورشید شاہ کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سوا تمام جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ مسودے میں سمندر پار پاکستانیوں کے الیکشن لڑنے کی تجویز پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے رہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی آئینی ترمیم کے مسودے پر اتفاق رائے کی تصدیق کی ہے۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل کا جو ڈرافٹ ہے وہ قابل قبول ہے۔
ترامیم کے لیے حکومت نے 56 نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا، مشاورت کے بعد اس میں 26 نکات رہ گئے۔ ان نکات میں آئین کے آرٹیکل 48 میں ترمیم بھی شامل کی گئی ہے جس کے تحت وزیراعظم یا کابینہ کی جانب سے صدر کو بھیجی گئی کوئی بھی سمری منظور ہونے کے بعد کسی بھی عدالت، ادارے یا اتھارٹی میں چیلنج نہیں ہوسکے گی اور اس پر کوئی تحقیقات نہیں ہوں گی اور نہ اس کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی۔ جوڈیشل کمیشن تیرہ رکنی ہوگا جبکہ بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی تقرری کرے گی جس میں آٹھ اراکین قومی اسمبلی اور چار ارکان سینیٹ سے ہوں گے۔ چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال ہوگی۔
علاوہ ازیں، ہائیکورٹ کا جج بننے کے لیے پاکستانی شہری ہونا ضروری ہوگا اور اس کی عمر 40 سال سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ جج بننے والا شخص کم از کم ہائی کورٹ میں 10 سال کی پریکٹس کا حامل ہو اور کم از کم 10 سال سے اس کا پاکستان کے اندر جوڈیشل آفس موجود ہو۔ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو ہوگی اور چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہوں گے۔ خصوصی پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے 3 سینئر ترین ججز میں سے ایک نامزد کرے گی۔ کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔ ججز تعیناتی کمیشن میں ایک خاتون یا غیرمسلم رکن ہوں گے، یہ خاتون یاغیرمسلم سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کا الیکشن لڑنے کے اہل ہونے چاہئیں۔ ایسی خاتون یا غیرمسلم کی بطور رکن تقرری چیئرمین سینیٹ کریں گے۔
حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے لیے اس وقت سب سے اہم موضوع مذکورہ آئینی ترامیم پیکیج ہے جس کے لیے اعلیٰ سطح پر ملاقاتیں بھی ہورہی ہیں اور  جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی مسلسل چلتا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں جمعہ کے روز صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم محمد شہبازشریف کی بھی ملاقات ہوئی جس میں موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے دوران پارلیمانی کمیٹی کے آئینی ترامیم کے مسودے پر بھی بات کی گئی۔ نون لیگ اپنے طور پر اس کوشش میں لگی رہی ہے کہ آئینی ترامیم اس کی منشا کے مطابق جلد از جلد منظور ہو جائیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی اتنی جلدی کے حق میں نہیں تھی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور بعض دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اس حوالے سے نون لیگ کے ساتھ اتفاق نہیں کیا۔
جمعہ کے روز پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ایک اہم ملاقات پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر سے ہوئی جس میں ان کو بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کی یقین دہانی کرائی گئی۔ اس موقع پر بلاول نے کہا کہ آج آپ جائیں اور بانی پی ٹی آئی سے حتمی مسودے پر بات کریں۔ پی ٹی آئی نے عمران خان سے ملاقات کے لیے کمیٹی بنائی تھی جس کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ہوگئی۔ جس میں حتمی مسودے پر بریفنگ دی گئی۔ کمیٹی میں بیرسٹر گوہر، سلمان اکرم راجا، حامد خان، علی ظفر اور اسد قیصر بھی ملاقات میں شامل تھے۔
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ خصوصی کمیٹی نے مشاورت کے بعد آئینی ترامیم کا مسودہ طے کرلیا ہے لیکن اس سلسلے میں ایک ماہ سے زائد عرصے کے دوران جو بھاگ دوڑ ہوئی اس نے عوام کے ذہنوں میں اس بات کو راسخ کرنے میں کردار ادا کیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے جس تندہی سے کام کرتی ہیں ملکی اور عوامی مسائل حل کرنے کے لیے اتنی جانفشانی سے کام نہیں کیا جاتا۔ مجوزہ ترامیم کے ذریعے آئین میں جو تبدیلیاں کی جارہی ہیں ان میں سے بعض ایسی ہیں جو واضح طور پر پارلیمان کی عدلیہ پر بالادستی ظاہر کرتی ہیں جس سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ حکومت عدلیہ کو مقننہ اور انتظامیہ کے تابع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
نون لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں کو آئینی ترامیم کرتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہمیشہ اقتدار ان کے ہاتھ میں نہیں رہنا اور اگلی بار ممکن ہے حکومت کسی ایسی جماعت کی ہو جو ان سے نظریاتی اور سیاسی اختلافات رکھتی ہے، لہٰذا ایسی ترامیم جو آج ایوانِ اقتدار میں موجود ایک سیاسی جماعت یا گروہ کے کام آسکتی ہیں وہ کل دوسری جماعت اور گروہ کے لیے بھی ہتھیار ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے پاس ماضی قریب کی بھی کچھ مثالیں موجود ہیں، اس لیے حکمران اتحاد کو اس سلسلے میں سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا چاہیے اور آئین میں ایسی ترامیم کرنی چاہئیں جو کسی ایک جماعت یا گروہ نہیں بلکہ مجموعی طور پر ملک کے لیے استحکام کا باعث بنیں۔

ای پیپر دی نیشن