شنگھائی تعاون آرگنائزیشن کے 23 ویں سالانہ سربراہ اجلاس جسکا انعقاد اسلام آباد میں 14اکتوبر سے 16اکتوبر تک جاری رہا۔باقاعدہ اجلاس دو دن 15,16اکتوبر کے لئے شیڈول تھا۔ اس اہم سمٹ کی میزبانی پاکستان کے لئے ایک بڑے اعزاز و افتخار اور سنگ میل عبور کرنے کی عکاس ہے۔ اس کانفرنس کی کامیابی و پاکستان کا روشن چہرہ اجاگر کرنے کا سہرا بلا مبالغہ موجودہ حکومت پاکستان بالخصوص وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار،ترقیات و منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال اور دیگر ارباب حکومت کو جاتا ہے۔ اس سمٹ کی میڈیا کوریج اور رکن ممالک و عالمی میڈیا کی بروقت سہولیات فراہمی کے لئے نوجوان وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کی کوششیں و کاوشیں بھی لائق صد تحسین ہیں۔چین کے وزیراعظم لی چیانگ اس کانفرنس میں شرکت کے لئے ایک روز قبل اسلام آباد پہنچنے سے اسکی اہمیت و افادیت دو چند ہو گئی۔
صدر پاکستان آصف علی زرداری نے چینی وزیراعظم کے اعزاز میں ظہرانہ کا اھتمام کیا جس میں میاں نواز شریف سمیت وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سینٹ کے چئیر مین و قومی اسمبلی کے سپیکر،افواج پاکستان کے چیفس سمیت اراکین پارلیمنٹ و اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔چین پاکستان کا ایک مخلص اور مستقل دوست ہی نہیں بلکہ پاکستان کا معاشی و دفاعی شعبے میں اہم و باعتماد پارٹنر و سرپرست بھی ہے۔ایس سی او دنیا بھر کی چالیس فیصد آبادی،80 فیصد گیس،اور 20 فیصد فیول پیدا کرنے والے ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے، جس میں چین، روس وسط ایشیائی ریاستیں کرغیزستان تاجکستان قازقستان ،ایران بیلاروس سمیت پاکستان و بھارت بھی اسکے ممبر ہیں۔
اس تنظیم کا قیام اولا" اپریل 1996 میں عمل میں آیا جس میں ابتدائی طور پر پانچ ممالک شامل تھے۔جسے باقاعدہ طور پر پر 2001 میں ایک فورم آرگنائزیشن کا درجہ دیا گیا۔ اسکے ممبران کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا شروع میں سلامتی کونسل کے دو مستقل اور کمیونسٹ نظریہ رکھنے والے دو عالمی طاقتوں چین و روس نے قازقستان،تاجکستان کرغیزستان کے اشتراک سے اسکا initiative لیا گیا بعد ازاں دیگر ممالک بھی اس کا حصہ بنتے گئے اس وقت اس تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد دس ہے اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔حالیہ 23 ویں اجلاس میں منگولیا اور افغانستان نے اس میں مبصر کی حیثیت میں شرکت کی۔ ایک وقت میں امریکہ نے بھی اس تنظیم کا مبصر بننے کی درخواست کی تھی لیکن اسے ممبر ممالک نے باہمی مشاورت سے مسترد کردیا۔ پاکستان نے اس تنظیم میں شرکت کے لئے 2009 میں درخواست دی تھی جب پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، پاکستان کی رکنیت کا فیصلہ2016 اور باقاعدہ ممبر شپ جون 2017 میں ملی جب یہاں پاکستان میں میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن کی حکومت قائم تھی۔بھارت کو بھی 2017 میں اس تنظیم کی رکنیت دی گئی اس طرح یہ ایک اہم پلیٹ فارم ہے جو دنیا کی چالیس فیصد آبادی کا نمائندہ ھے جس میں چار ایٹمی قوتیں چین،روس،بھارت اور پاکستان اسکے ممبر ہیں۔
حالیہ اجلاس میں چین، روس،پاکستان کے وزرائے اعظم سمیت دیگر ممالک کے وزرائے حکومت نے شرکت کی جو اپنے اپنے ممالک کے سربراہان حکومت کے نمائندے کے طور پر شریک ہوئے۔دس ممالک کے 900سے زیادہ مندوب اس سمٹ کا حصہ رہے جسکی حفاظت کے لئے دس ھزار سے زاہد سکیورٹی و معاون اھلکاروں نے حصہ لیا اس کے لئے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کو انتہائی خوبصورتی زیبائش و آرائش سے مزین کیا گیا تھا۔کانفرنس میں میزبان ملک کے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی صدارتی تقریر اختتامی کلمات اور نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور سیکرٹری جنرل ایس سی او کی پریس بریفنگ و مشترکہ اعلامیہ اور نتائج کے ساتھ اختتام پذیر ہوا اور رکن ممالک نے بلاک کے اندر کثیرالطرفہ تجارت، اقتصادی تعاون اور ای کامرس کو بڑھانے پر زور دیتے ہوئے آٹھ اہم معاہدوں پر اتفاق کیا۔
مشترکہ اعلامیہ سے اہم نکات:
معاشی تعاون: اعلامیے میں ایس سی او کے رکن ممالک کی اقتصادی ترجیحات کی بنیاد کے قیام کے تصور اور ڈیجیٹلائزیشن کے میدان میں ایس سی او کے رکن ممالک کے درمیان تعاون کے تصور کو نافذ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تعلیم اور تحقیق: وفد کے سربراہان نے وزرائے تعلیم کی میٹنگ کے نتائج کو نوٹ کیا، جس میں SCO یونیورسٹی کے اندر تعاون بڑھانے، تعلیمی تبادلے، مشترکہ سائنسی کام، اور پیشہ ورانہ تربیت پر توجہ دی گئی۔ تجارت و تجارت: رکن ممالک کو غیر ملکی اقتصادی اور غیر ملکی تجارتی سرگرمیوں کے ذمہ دار ایس سی او وزراء کے اجلاس کے نتائج پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ معاہدے اور اعلانات علاقائی تعاون اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے SCO کے رکن ممالک کے عزم کو ظاہرکرتے ہیں اس سے کانفرنس کے اہداف و مقاصد کی بخوبی نشاندہی ہوتی ہیں جو دور رس ثمرات و توقعات کی حامل ہے۔
وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے اپنے افتتاحی صدارتی خطاب میں نہایت مدلل،مختصر مگر جامع انداز میں درپیش عالمی مسائل کی نہ صرف نشاندھی کی بلکہ راہ عمل کا بھی احاطہ کیا۔وزیراعظم شہباز شریف کی تقریر میں علاقائی چیلنجوں سے نمٹنے اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے تنظیم کے فریم ورک کو مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔
تقریر کے اہم نکات:_
علاقائی چیلنجز: وزیراعظم شریف نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ متعدد علاقائی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں، ایسے مستقبل کو فروغ دیں جو تمام رکن ممالک کے لیے خوشحال، محفوظ اور جامع ہو۔ علاقائی امن کے لیے عزم: انھوں نے علاقائی امن، استحکام، اور بہتر روابط کے ساتھ ساتھ پائیدار سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ تعاون کی اہمیت: وزیر اعظم شریف نے SCO کے رکن ممالک کے درمیان تعاون کی اہمیت پر زور دیا، سماجی و اقتصادی ترقی، علاقائی امن اور استحکام کے امکانات کو اجاگر کیا۔ کنیکٹیویٹی اور تجارت: انہوں نے علاقائی رابطے کی اہمیت پر زور دیا، بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو، چین پاکستان اقتصادی راہداری، اور شمال-جنوب انیشیٹو جیسے اقدامات کی حمایت کی۔ غربت کا خاتمہ: وزیر اعظم شہباز شریف نے غربت کے خاتمے کے لیے اجتماعی کوششوں پر زور دیا، اسے اخلاقی ضرورت سمجھتے ہوئے افغانستان کے لیے انسانی امداد کی ضرورت پر زور دیا، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ اس کی سرزمین ہمسایہ ممالک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔ غزہ مسئلہ: وزیر اعظم شریف نے غزہ میں انسانی بحران پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل فلسطین تنازعہ کے دو ریاستی حل کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے تشدد کے فوری خاتمے، شہریوں کی جانوں کے تحفظ اور انسانی امداد تک بلا رکاوٹ رسائی کا مطالبہ کیا۔ بین الاقوامی تعاون: انہوں نے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کثیرالجہتی کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ SCO کا کردار: وزیراعظم شریف نے علاقائی استحکام، اقتصادی ترقی اور ثقافتی تبادلے کو فروغ دینے میں SCO کے اہم کردار پر روشنی ڈالی، رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ انسداد دہشت گردی، توانائی اور تجارت جیسے شعبوں میں تعاون کو مضبوط کریں۔ مجموعی طور پر، وزیر اعظم شریف کی تقریر علاقائی اور عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے SCO کے رکن ممالک کے درمیان اتحاد، تعاون اور اجتماعی عمل کو فروغ دینے پرمرکوزتھی۔
اس کانفرنس کا ایک اہم پہلو بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی اجلاس میں شرکت میڈیا کا موضوع رہا کہ کانفرنس کے سائڈ لائن ملاقاتوں میں بھارتی صحافی برکھا رت نے پاکستان کے مدبر سٹیٹس مین اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر محمد نواز شریف کا انٹرویو بھی کیا جس میں انہوں نے بڑے واضع انداز میں کہا کہ اس کانفرنس کا تقاضا تھا کہ بھارتی وزیراعظم اس میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتے اور انکی ہمیشہ یہ خواہش ہی ہے کہ بھارت اور پاکستان اچھے پڑوسیوں کی طرح باہمی خوشگوار تعلقات رکھیں۔ اس سلسلے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پائے جانے والی کشیدگی اور روایتی کھچاو کے باوجود پاکستان نے بھارت کی میزبانی میں کوئی کمی یا تخصیص نہیں آنے دی دونوں ممالک کے درمیان سائیڈ لائن میٹنگ کا کوئی با ضابطہ شیڈول تو نہیں تھا لیکن اسکے باوجود وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور بھارتی وزیر خارجہ کے مابین ہلکی پھلکی گفتگو چلتی رہی جو ممکن ہے مستقبل میں دونوں ممالک کو درپیش مسائل میں کمی کا موجب بن سکے۔
اس کانفرنس کے انعقاد سے پاکستان کے قومی وقار اور عالمی کردار میں نمایاں بلندی و سرفرازی اس امر کی غماز ھے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت مبارکباد کی مستحق ہے۔اس کانفرنس کو سبوتاڑکرنے کے لئے تحریک انصاف کے مذموم عزائم بھی سامنے آئے لیکن الحمد اللہ قومی اتحاد و اتفاق نے اس سازش کو ناکام بنایا تحریک انصاف نے ھمیشہ ایسے مواقعوں پر پاکستان کے قومی مفادات کو ٹھیس پہنچانے سے گریز نہیں کیا۔