آئینی ترامیم کے سارے راستے مولانا فصل الرحمن کی طرف

پاکستان اس ہفتے جلسے جلوسوں دھرنوں اور حکومت کی طرف سے شنگھائی کانفرنس سجائے جانے پر اقوام عالم میں عالمی سطح پر صفحہ اول کی خبروں میں رہا جبکہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف اور ان کی کابینہ شنگھائی کانفرنس کے شرکاء کی امد پر ان کو خوش امدید کہہ رہے ہیں اور ان کی امد پر پاکستان کی معاشی حالات بہتر بنانے پرلگے رھے جب کہ اپوزیشن نے شنگھائی کانفرنس کے موقع پر اسلام اباد ڈی چوک میں احتجاج کرنیکا فیصلہ کیا تھا جوکہ ملکی مفادات اور حکومت کے اسرار پر واپس لے لیا تھا لیکن حکومت نے شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے  اسلام اباد کو ہر لحاظ سے محفوظ بنانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں اسلام اباد پولیس کے ساتھ پنجاب پولیس کے نوجوانوں کو تعینات کیا  اس طرح شنگھائی کانفرنس حکومت کی بناے  ہوے شیڈول کے مطابق اپنی منزل کو پہنچی لیکن حکومت جو شنگھائی کانفرنس کی اڑ میں  ائینی بل سینٹ قومی اسمبلی اور کابینہ سے منظور کرانا چاہتی تھی وہ پوری طرح نا کام رھی حالانکہ حکومت کا پکا فیصلہ تھا کہ ان تینوں دنوں میں جب کہ عدالتیں بھی بند ہوں گی اور ازاد ارکان جن پر قبضہ کر رکھا ہے وہ کسی جگہ پہ جا کے فریاد بھی نہیں کر سکیں گے اور ہم اپنی مرضی کرتے ہوئے ائینی ترمیم کر لیں گے اور پھر جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس نہیں بن سکیں گے ہمیں جو فارم 47 کی حکومت کہا جا رہا ہے یہ بدستور چلتی رھے گی  پہلے تو حکمران طبقے کی طرف سے سے یہ تاثر دیا گیا کہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ہماری ہونے والی ملاقاتیں رنگ لائی ہیں لیکن بعد ازاں جب حکومت اور تحریک انصاف کے وفود دن رات مولانا  کے گھر اتے جاتے رہے اور ائینی ترامیم کے مصودہ ایک دوسرے کو رام کرنے کے لیے دکھاتے رہے لیکن حکمران جو کہ کچی گولیاں نہ کھلیھوے تھے وہ ہر دفعہ ایئنی ترمیم میں کچھ  ڈال کر یا نکال کر لاتے اور ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے نمبر پورے کرنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور ارکان قومی اسمبلی  کو دباؤ میں لانے کا سلسلہ جاری رکھا اور اب جب حکمرانوں نے دیکھا کہ مولانا فضل الرحمن اپنا قد بڑھانے کے لیے اور اپنی ٹینکی میں زیادہ ڈیزل ڈلوانے کے لیے ملنے والے وقت کو اور بڑھا رہے ہیں تو جمیعت علماء￿  اسلام کے سینیٹرز اور ارکان قومی اسمبلی پرشب خون مارنا شروع کر دیا اورمولانا فضل الرحمن چیخ اٹھے کہ ہم اپ سے بات چیت کی سزا اٹھا رہے ہیں اور ہمیں کمزور سمجھتے ہوئے ہمارے ارکان کو بھی تحریک انصاف کی طرح ڈرایا دھمکایا اور بہت بڑی رقم کا لالچ دے کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی تو انہوں نے یکدم اعلان کیا اور تحریک انصاف  کی  قیارت کی موجودگی میں حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اگر اپ نے یہ بدمعاشی جو پہلے تحریک انصاف کے سینٹر اور ایم این اے سے کر رہے تھے وہ ہمارے ساتھ بھی شروع کی ہے تو میں واضح اعلان کرتا ہوں کہ ہم اس  بدماشی کا جواب بدمعاشی سے دیں گے اس کے باوجود حکومت اور اپوزیشن نے مولانا فضل الرحمان کے  گھر کا دروازہ نہیں چھوڑا  پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری  جو کہ حیدراباد میں سانحہ کارساز کے سلسلہ میں منعقدہ جلسہ سے خطاب کرنے کے بعد رات  ایک بجے مولانا فضل الرحمان کی رہائش کاہ پر پہنچے اور ان سے گزارش کی کہ ہمارا اپس میں  اتحاد ہو چکا ہے اور ہم نے ایک ساتھ جا کرمیاں محمد نواز شریف سے  جاتی عمرہ میں ملاقات کر کے تین جماعتی ائینی  ایجنڈا بنا لیا ہے اور اپ نے تحریک انصاف سے ملاقات کرنے کے بعد جس غصے کا اظہار کیا ھے وہ بالکل بجا ھے اور میں نے حکومت کو سمجھایا ھے کو ایسے تمام راستے بند کر دیں اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ہر معاملے میں کھل کر بات کریں اور پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں جو تحفظات ہیں وہ مولانا فضل الرحمان کے زریعے حل کرائیں اس موقع پر بلاول زرداری نے کہا کہ مولانا صاحب میں نے حکومت سے پی ٹی ائی کے وفد کو جیل میں عمران خان سے ملاقات کرانے کا بندوبست کر دیا ہے تو اس طرح تحریک انصاف کا وفد عمران خان سے ملے گا اور جن ترامیم کے بارے میں ہمارا اتفاق ہوا ھے مجھے امید ہے کہ عمران خان بھی ان ترمیم کو متفقہ طور پر منظورکر لیں گے

ای پیپر دی نیشن