کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ جب ہمارے ہاں پیش آتا ہے تو اس پر مظلوم کی بات سننے کی بجائے الٹا ہر جگہ پر ظالم کو عزت بخشی جاتی ہے بلکہ اس واقعہ کی اصلیت کو دبانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے اور دوسری جانب عوام کے اندر ایک دوسرے کو یہ کہا جاتا ہے کہ ہائے کیا کریں یہاں پر تو جنگل کا قانون نافذ ہے مگر یہاں پر سمجھ نہیں آتی کہ آپ کس جنگل کے قانون کی بات کرتے ہیں۔ شاید عوام اس لیے یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ملک میں نہ تو آئین کی حکمرانی ہے نہ قانون کی اور نہ ہی جمہوریت کی، ملک میں جنگل کا قانون ہے اور جنگل کے بادشاہ کا قانون ہی چاروں طرف چلتا ہے۔ مگر افسوس کہ سمجھ نہیں آتی کہ باوجود اس کے یہ کس جنگل کے قانون کی بات کرتے ہیں۔ یہاں پر تو کوئی قانون قاعدہ نہ ہے بس ہر طرف جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی بات بنی ہوئی ہے۔ جبکہ ہم نے تو آج تک یہی سنا ہے ہم نے کیا سنا ہے یہ آپ کو درج ذیل نظم کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہو ہوگا۔
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
کبھی طوفان آجائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خدا وندا جلیل و معتبر دانا و بینا منصف و اکبر
مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر
اب ہمیں بھی پیٹ بھرا شیر چاہیے جو صرف درختوں کی گھنی چھاؤں میں آرام کرے شہروں کا رخ نہ کرے جس نے ایک عرصہ سے شہریوں کا جینا محال کر رکھا ہے۔