سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

Oct 20, 2024

گلزار ملک

 کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ جب ہمارے ہاں پیش آتا ہے تو اس پر مظلوم کی بات سننے کی بجائے الٹا ہر جگہ پر ظالم کو عزت بخشی جاتی ہے بلکہ اس واقعہ کی اصلیت کو دبانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے اور دوسری جانب عوام کے اندر ایک دوسرے کو یہ کہا جاتا ہے کہ ہائے کیا کریں یہاں پر تو جنگل کا قانون نافذ ہے مگر یہاں پر سمجھ نہیں آتی کہ آپ کس جنگل کے قانون کی بات کرتے ہیں۔ شاید عوام اس لیے یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ملک میں نہ تو آئین کی حکمرانی ہے نہ قانون کی اور نہ ہی جمہوریت کی، ملک میں جنگل کا قانون ہے اور جنگل کے بادشاہ کا قانون ہی چاروں طرف چلتا ہے۔ مگر افسوس کہ سمجھ نہیں آتی کہ باوجود اس کے یہ کس جنگل کے قانون کی بات کرتے ہیں۔ یہاں پر تو کوئی قانون قاعدہ نہ ہے بس ہر طرف جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی بات بنی ہوئی ہے۔ جبکہ ہم نے تو آج تک یہی سنا ہے ہم نے کیا سنا ہے یہ آپ کو درج ذیل نظم کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہو ہوگا۔

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے 
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا 
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے 
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں 
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر 
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے 
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے 
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے 
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں 
کبھی طوفان آجائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو کسی لکڑی کے تختے پر 
گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں 
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے 
خدا وندا جلیل و معتبر دانا و بینا منصف و اکبر
مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر
  اب ہمیں بھی پیٹ بھرا شیر چاہیے جو صرف درختوں کی گھنی چھاؤں میں آرام کرے شہروں کا رخ نہ کرے جس نے ایک عرصہ سے شہریوں کا جینا محال کر رکھا ہے۔

مزیدخبریں