پنجاب :انسداد سموگ کیلئے محکمہ زراعت کے تعمیری اقدامات

 سموگ فضائی آلودگی کی وہ قسم ہے جو مختلف فضائی گیسوں مثلاً نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر آکسائیڈ، دھواں، کاربن مونو آکسائیڈ، کلوروفلورو کاربن وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔ پاکستان میں سموگ  کے اثرات ماہ ستمبر کے آخر سے لے کر ماہ دسمبر کے آخر تک  رونما ہوتے ہیں۔ صوبہ پنجاب کے کئی شہروں خصوصاً دھان کی کاشت کے علاقوں میں سموگ کی وجہ سے گزشتہ کئی سالوں سے عوام الناس کو صحت کے خطرات کا سامنا رہا ہے۔سموگ کی وجہ سے ٹریفک حادثات رونما ہونے کے ساتھ ساتھ کئی ہوائی پروازیں بھی منسوخ ہوئیں جس سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔ پنجاب میں فضائی آلودگی کا سبب بننے والے عوامل میں ٹرانسپورٹ 65فیصد، صنعتی شعبہ25 فیصد، فصلوں کی باقیات کو آگ لگانا 13.9فیصد و دیگر وجوہات 16.1فیصدحصہ دار ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی کے لحاظ سے لاہور کا شمار دنیا کے10بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں عوامی مفاد عامہ کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت پنجاب نے سموگ کو ایک قدرتی آفت قرار دیا ہے اور اس کی روک تھام کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد''سموگ کنٹرول پروگرام '' پر عملدرآمد کا آغاز کیا ہے اور محکمہ انڈسٹری، ٹرانسپورٹ،زراعت و دیگر متعلقہ محکموں کو سموگ کنٹرول کیلئے واضح اہداف سونپ دئیے گئے۔ اس پروگرام کے تحت دھان کے مڈھوں اور پرالی کی تلفی کے لیے کاشتکاروں کو 5 ارب روپے کی خطیر رقم سے 60 فیصد سبسڈی پر 5 ہزار سپر سیڈرز فراہم کیے جا رہے ہیں تاکہ دھان کے مڈھوں اور پرالی کو اس جدید زرعی مشینری کے استعمال سے کارآمد بنایا جا سکے اور کاشتکاروں کو دھان کی باقیات کو آگ لگانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ اس پروگرام کے تحت کاشتکاروں کو سپر سیڈرز 60فیصد سبسڈی پر فراہم کئے جا رہے ہیں۔ وزیراعلی پنجاب کی خصوصی ہدایات پر سموگ  ایمرجنسی ہاٹ لائن قائم کر دی گئی ہے جس کے تحت عوام الناس سموگ کے اسباب بننے والے واقعات کی فون نمبر 1373 پر کال کرکے اطلاع کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں محکمہ زراعت، انڈسٹری، ماحولیات، ٹرانسپورٹ و دیگر متعلقہ محکمے سموگ کنٹرول کیلئے ہر ممکن وسائل اور ذرائع بروئے کار لا رہے ہیں۔ امسال صوبہ پنجاب میں 66 لاکھ ایکڑسے زائد رقبہ دھان کے زیرِ کاشت لایا گیا جس پر فصل کی کٹائی کا عمل جاری ہے۔ محکمہ زراعت پنجاب کے تحت سموگ کنٹرول حکمت عملی2024?25کو حتمی شکل دے دی گئی ہے جس کے تحت دھان کے مڈھوں اور پرالی کی تلفی کیلئے کاشتکاروں کو محکمہ زراعت پنجاب کے مقامی زرعی ماہرین کے ذریعے راہنمائی فراہم کی جا رہی ہے۔گزشتہ سال دھان کی فصل کی باقیات کو آگ لگانے والے کاشتکاروں کو 3لاکھ 50 ہزاروارننگ نوٹسز ایشو کئے گئے ہیں۔مختلف ہائی ویز اور فارم/ مارکیٹ روڈز پر دھان کی باقیات کو آگ نہ لگانے سے متعلق پیغامات برجیوں پر تحریر کئے گئے ہیں۔اس کے علاوہ مساجد میں اعلانات بھی کرائے جا رہے ہیں آگ لگانے کے نقصانات،جرائم،گرفتاری،سزا وغیرہ کے بارے میں بھی بڑے پیمانے پر تمام تر ذرائع ابلاغ کے استعمال سے آگاہی فراہم کی جا رہی ہے۔اس ضمن میں وزیر زراعت ولائیو سٹاک پنجاب سید عاشق حسین کرمانی اورسیکرٹری زراعت پنجاب افتخار علی سہو سموگ کنٹرول پروگرام کیلئے باقاعدگی سے جائزہ اجلاس کا انعقاد کر رہے ہیں اور سموگ بارے تازہ ترین صورتحال اور آئندہ کیلئے ٹاسک و لائحہ عمل زیرِ بحث لاتے ہیں اور ہدایات جاری کرتے ہیں کہ سموگ کنٹرول کیلئے دھان کی باقیات کو جلانے بارے زیرو ٹالرینس پالیسی پر کیسے عملدرآمد کرنا ہے۔ حکومت پنجاب نے محکمہ زراعت کے افسران کو سموگ کنٹرول کیلئے خصوصی اختیارات بھی تقویض کئے گئے ہیں اورفیلڈ فارمیشنز کو واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ ایسے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق زیرو ٹالرینس پالیسی پر عملدرآمد کیا جائے۔دھان کے علاقوں میں کاشتکاروں کی آگاہی کیلئے اب تک 6 ہزار 9سو 62 ٹریننگ پروگرامز کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں 1 لاکھ 46 ہزار سے زائد کاشتکاروں نے شرکت کی۔اس کے علاوہ دھان کی باقیات کو اگ نہ لگانے سے متعلق آگاہی کیلئے 190 کاشتکاروں کے بڑے اجتماعات منعقد کئے گئے جن میں 27 ہزار سے زائد کاشتکاروں نے شرکت کی۔ علاوہ ازیں، دھان کی باقیات کو آگ لگانے کے واقعات کی سپارکو سیٹلائٹ اور ڈرون کے ذریعے نگرانی بھی کی جا رہی ہے اور دھان کی باقیات کو آگ لگانے والے عناصر کے خلاف پنجاب انوائرمنٹل پروٹیکشن رول 2023 کے تحت مقدمات اور گرفتاری عمل میں لائی جا رہی ہیں۔ دھان کی باقیات کو آگ لگانے کے اب تک 190 واقعات رپورٹ کئے گئے ہیں جن پر محکمہ زراعت کی خصوصی ٹیموں نے فوری کاروائی کی۔ان میں سے تحقیقات کے بعد 107 واقعات درست قرار پائے۔اب تک دھان کے مڈھوں کو کل174 ایکڑ رقبہ پر آگ لگائی گئی ہے جس کے ذمہ داران کے خلاف 22 ایف آئی آرز کا اندارج عمل میں لایا گیا ہے اور ان  واقعات میں ملوث افراد پر مجموعی طور پر 18 لاکھ 53 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ محکمہ زراعت کی خصوصی ٹیمیں موٹر وے پولیس کے ساتھ رابطے میں رہیں تاکہ ٹریفک حادثات سے بچنے کیلئے بالخصوص موٹروے کے اطراف دھان کی باقیات کو آگ لگانے والوں کے خلاف فوری نہ صرف کارروائی کی جائے بلکہ اس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے بھی ا قدامات کئے جائیں۔ محکمہ زراعت پنجاب کی جانب سے پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل و سوشل میڈیا کے ذریعے کاشتکاروں کو آگاہی دی جا رہی ہے کہ دھان کے مڈھوں کو آگ لگانے کی بجائے انہیں زمین میں ملا کر اس کی زرخیزی میں اضافہ کریں۔ دھان کے مڈھوں کو تلف کرنے کے لیے کاشتکار دستی کٹائی کی صورت میں روٹا ویٹر اور مشین سے کٹائی کی صورت میں ڈسک ہیرو کی مدد سے فصل کی باقیات کو زمین میں ملا دیں یا گہرا ہل چلا کر آدھی بوری یوریا فی ایکڑ چھٹہ کر کے پانی لگا دیں۔ اس کے علاوہ کاشتکار دھان کے مڈھوں کی تلفی کے لیے سپر سیڈر یا رائس سٹرا شریڈرز کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔ امسال کاشتکاروں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ حکومت پنجاب کے قوانین کے مطابق فصلوں کی باقیات کی تلفی نہ کرنے کی صورت میں اندراج مقدمہ، گرفتاری اور جرمانے کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ سموگ کی وجہ سے انسانی زندگی کے ساتھ فصلات، باغات اور سبزیوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سموگ سے بچاؤ کے لیے ہر شخص کو انفرادی طور پر بھی حصہ لینا چاہیے۔  اس کے لیے گھروں میں یا باہر کھلی جگہوں میں آگ لگانے یا دھواں پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ سموگ کے زہریلے اثرات کو ختم کرنا انسان کے بس سے باہر ہے مگر اس کو  انفرادی کوششوں سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن