ہر روز جرم کے مختلف واقعات پیش آتے ہیں۔ تاہم جو جرم قابل دست اندازی پولیس ہوتے ہیں۔ اْن کے مقدمات متعلقہ دفعات کے تحت درج کر لئے جاتے ہیں۔ میڈیا جرم کے جن واقعات کو رپورٹ کرتا ہے۔ وہ ہائی پروفائل کیس بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک ہائی پروفائل کیس حالیہ دنوں میں سامنے آیا جب لاہور کے ایک نجی ویمن کالج سے جڑی جرم کی ایک کہانی سوشل اور نیشنل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئی جس نے ہر طرف کہرام بپا کر دیا۔
نجی ویمن کالج میں طالبہ کے ساتھ سیکورٹی گارڈ کی ’’مبینہ زیادتی‘‘ کی خبر نے پنجاب میں ایوان اقتدار کے درو دیوار ہلا دئیے۔ کئی شہروں میں ہنگامے بھی ہوئے۔ احتجاج کے لئے طلباء و طالبات کثیر تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے جس سے خوف و ہراس پیدا ہوا۔ خصوصاً سٹوڈنٹ بچیوں کے والدین اور دیگر اہلخانہ میں بہت زیادہ عدم احساس پایا گیا۔ مبینہ وقوعہ کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صوبہ کی وزیراعلیٰ کو خود میڈیا کے سامنے آنا پڑا، مبینہ وقوعہ کی ساری حقیقت اور کہانی اْن کے سامنے رکھنی پڑی۔
مریم نواز نے ایک گھنٹہ سے بھی زیادہ دورانیے کی پریس کانفرنس کی جسے نیشنل میڈیا نے براہ راست دکھایا۔ مریم نواز نے مبینہ و قوعہ کے حوالے سے اب تک ہونے والی تحقیقات کی روشنی میں ساری معلومات میڈیا سے شیئر کیں۔ مریم کا مؤقف تھا مبینہ وقوعہ سرے سے ہوا ہی نہیں۔ انہوں نے الزام لگایا ایک سیاسی جماعت ( پی ٹی آئی) نے ’’من گھڑت‘‘ واقعہ کو سوشل میڈیا پر اس طرح پھیلایا کہ شور مچے، شہر شہر انتشار ہو اور افراتفری پھیلے۔ امن و امان کی صورت حال خراب ہو جائے اور وہ بطور جماعت اس کا سیاسی فائدہ اٹھا سکیں۔
لاہور کے نجی ویمن کالج میں طالبہ کے ساتھ سیکورٹی گارڈ کی مبینہ زیادتی کی خبر کے معاملے پر حکومت پنجاب کی جانب سے تشکیل دی گئی اعلیٰ سطح کی کمیٹی نے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ حکومت کو جمع کرا دی ہے جس کی روشنی میں فیڈرل تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو مزید تحقیق کا کہا گیا ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق سوشل میڈیا پر منفی اور بوگس پروپیگنڈا مہم چلانے والے ایک وکیل کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ 36مزید ایسے سوشل میڈیا اکائونٹس کا سراغ لگایا جا چکا ہے جنہیں منفی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا اور من گھڑت خبریں پھیلائی جا رہی تھیں۔ کچھ وی لاگر بھی سرگرم تھے۔ سخت قسم کا ہیجان پیدا کیا جا رہا تھا۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق طالبہ مذکورہ کے والدین نے سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا اور جھوٹ پھیلانے والوں کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت ایف آئی اے کو اندراج مقدمہ کے لیے درخواست جمع کرا دی ہے۔ والدین کا کہنا ہے ہماری بیٹی کو بلا وجہ واقعہ میں ملوث کیا جا رہا ہے۔ جس دن مبینہ وقوعہ کا ہونا بیان کیا جا رہا ہے ہماری بیٹی زیر علاج ہونے کی وجہ سے چھٹیوں پر تھی۔ 2اکتوبر کو وہ بیڈ سے گری جس کے باعث اْس کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی۔ بچی کو کینٹ میں واقع برین اینڈ سپائن کلینک کے ڈاکٹر صابر حسین کے پاس لے جایا گیا۔ بعد ازاں اتفاق ہسپتال میں بھی بچی کا علاج جاری رہا۔ بچی سانس کی بیماری میں بھی مبتلا ہوئی جس کے باعث اْسے آئی سی یو میں بھی رکھا گیا۔ بچی کے داخلے اور علاج کے تمام دستاویزی ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے مبینہ وقوعہ کی انکوائری اور چھان بین کے لیے جو اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائی اْس نے منگل کا سارا دن کیس کی انکوائری میں گزارا۔ کمیٹی کا اختتامی جلاس سول سیکرٹریٹ میں ہوا جس میں تمام عوامل کا جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی نے دوران انکوائری ڈی آئی جی آپریشن لاہور فیصل کامران ، نجی کالج کے ڈائریکٹر عارف چودھری، پرنسپل ڈاکٹر سعدیہ جاوید اور اے ایس پی گلبرگ کے بیان بھی ریکارڈ کئے۔ جس طالبہ کو مبینہ واقعہ سے منسوب کیا جا رہا ہے ، کمیٹی ارکان نے اْس طالبہ اور اُس کے والدین کے بھی بیانات قلمبند کئے۔
والدین کے مطابق بچی 2اکتوبر کو گھر میں بیڈ سے گری۔ جس سے اْس کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی۔ علاج کی غرض سے بچی کو کینٹ میں واقع برین اینڈ سپائن کلینک کے ڈاکٹر صابر حسین کے پاس لے جایا گیا۔ بعدازاں اتفاق ہسپتال سے بھی رجوع کیا۔ اس دوران بچی کو سانس کی تکلیف بھی ہوئی جس کے باعث وہ آئی سی یو میں بھی رہی جہاں سے 11اکتوبر کو ڈسچارج ہوئی۔
والدین نے کمیٹی پر واضح کیا کہ ’’طالبہ کے ساتھ زیادتی‘‘ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ سوشل میڈیا پر مبینہ وقوعہ کے حوالے سے مسلسل جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے۔ یہ تمام صورت حال سامنے آنے کے بعد انکوائری کمیٹی کے ارکان اس نتیجہ پر پہنچے کہ مبینہ وقوعہ کے حوالے سے محض پروپیگنڈہ مہم چلائی گئی جس کا مقصد ڈس انفارمیشن پھیلا کر ہیجان پیدا کرنا تھا تاکہ ہر طرف انتشار، بے چینی اور افراتفری پھیلے۔
اب یہ سارا معاملہ فیڈرل تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو دے دیا گیا ہے جس نے مزید تحقیقات کے لیے ایک سات رکنی ٹیم تشکیل دی ہے جو ڈس انفارمیشن پھیلانے والوں کا کھوج لگا رہی ہے تاکہ سائبر کرائم ایکٹ کے تحت اُن کے خلاف تادیبی کارروائی ہو سکے۔ پنجاب حکومت کو قوی یقین ہے کہ اس ڈس انفارمیشن کے پیچھے پاکستان تحریک انصاف کا ہاتھ ہے۔
وزیراعلی مریم نواز کا کہنا ہے اب تک جو معلومات سامنے آئی ہیں اُن کے مطابق تمام ڈس انفارمیشن کے پی کے اور بیرون ملک سے پھیلائی گئی ہے۔ جن کے اکائونٹ ہولڈرز کے نام ایف آئی اے کے پاس آ چکے ہیں۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے ڈی چوک پر احتجاج میں ناکامی کے بعد پی ٹی آئی نے یہ والا اوچھا ہتھکنڈا استعمال کیا تاکہ طلباء کو اکسا کر بنگلہ دیشی ماڈل پر ایک ایسی تحریک چلائی جا سکے، جیسی فیصلہ کن تحریک بنگلہ دیشی طلباء نے حسینہ واجد کے خلاف چلائی تھی جس کے نتیجے میں حسینہ کو وزیراعظم کا عہدہ اور ملک تک چھوڑنا پڑا۔
مبینہ طالبہ زیادتی کیس کے حوالے سے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ جب تک متاثرہ طالبہ منظر عام پر نہیں آ جاتی اور ٹھوس شواہد نہیں مل جاتے، کوئی بھی لیگل کارروائی نہیں ہو سکتی۔ جیسے کسی لاش کی دستیابی کے بغیر قتل کا مقدمہ درج نہیں ہو سکتا۔ ایسے ہی کسی شکایت پر بغیر کسی ثبوت کے ’’زیادتی‘‘ کا مقدمہ بھی درج نہیں ہو سکتا۔ الزام یہ لگایا جا رہا ہے کہ کالج انتظامیہ نے کارروائی سے بچنے کے لیے سی سی ٹی وی کیمروں کی تمام فوٹیج ڈیلیٹ کر دی ہے۔ یہ بڑا الزام ہے۔ ایف آئی اے انویسٹی گیشن ٹیم کو سنجیدگی سے اس ’’الزام‘‘ کا جائزہ لینا چاہیے کہ فوٹیج موجود ہے یا ڈیلیٹ کر دی گئی ہے؟ پھر صورت حال پوری طرح واضح ہو جائے گی۔ فوٹیج ڈیلیٹ ہونے کی صورت میں کئی طرح کے سوالات پیدا ہوں گے۔
کیا پاکستان تحریک انصاف اس سارے معاملے کے پیچھے ہے، اس الزام کی ضرور تحقیق ہونی چاہیے۔ یہ بہت ہی خوفناک الزام ہے کہ پی ٹی آئی مبینہ وقوعہ کی آڑ میں بنگلہ دیشی طلباء تحریک کے ماڈل پر پاکستان میں بھی ایسی ہی طلباء تحریک کا آغاز کرنا چاہتی تھی تاکہ حکومت سے جان چھڑائی جا سکے اور ملک گیر طلباء تحریک کے نتیجے میں میاں شہباز شریف وزیراعظم کا عہدہ چھوڑ دیں۔