انجانے خوف

کسی کا خوف کسی کا ڈر بہرحال کچھ تو ہے کسی نہ کسی حوالے سے کسی نہ کسی طرح یہ انسان کو چپک جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ کیفیت کبھی کبھی زیادہ سے انسان پر حاوی ہو جاتی ہے۔ اور بعض اوقات انسان اس پر حاوی ہو جاتا ہے۔ جب یہ خوف کسی پر حاوی ہو جاتا ہے تو وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ اور کسی کونے میں یوں دبک کر بیٹھ جاتا ہے۔ جیسے ابھی کہیں دھماکہ ہونے والا ہے۔
ہاں یہ دھماکوں کا خوف بھی ہو سکتا ہے جہاں یہ ہوتا ہو گا وہاں تو اک قیامت صغریٰ بپا ہوتی ہو گی۔ زخمیوں کی چیخ و پکار کسی کی موقعہ پر ہی موت تمام اردگرد کا ماحول خوفزدہ حتٰی کہ فضا میں اڑتے ہوئے پرندے بھی پریشان‘ ایمبولنس کے ہارنوں کی آوازیں‘ کسی کا سر نہیں تو کسی کا دھڑ نہیں۔ کوئی جیتا ہوا اپنے کو آپ آدھا دیکھتا ہے۔ تو کوئی بیہوشی میں ہسپتال پہنچتا ہے۔ ہسپتال کا عملہ ایمرجنسی میں زخمیوں کو سنبھالتا ہے۔ ڈاکٹرز جان بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ اک افراتفری کا منظر ہوتا ہے۔ لواحقین کی حالت بھی عجیب ہوتی ہے۔ رنگ زرد خوف کے مارے کانپتی ٹانگوں کے ساتھ وہاں پہنچے ہیں۔ یہ خوف والی حالت کو وہی جانتا ہو گا جو اس سے دوچار ہو گا۔ خوف کی اور بھی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں۔ یہ خوف بش کو بھی تھا اور اب اوباما کو بھی ہے کہ کہیں سے ہو سکتا ہے امریکہ پر حملہ ہو جائے گویا کہ دنیا میں حکمرانی کرتے ہوئے بھی وہ خوف کی بیماری سے دوچار ہیں حالانکہ ان لوگوں کو تو کسی قسم کا ڈر نہیں ہونا چاہئے۔ کہنے کا مطلب ہے خوف ہے کوئی ایسی چیز جو ہر آدمی سے ٹائم بم کی طرح چپکی ہوئی ہے۔
بہت امیر آدمی ہوتا ہے وہ تو پیسے کے زور ہر چیز خرید سکتا ہے اس کو کاہے کا خوف لیکن اتنی زیادہ دولت ہونے کے باوجود وہ بھی کسی نہ کسی خوف میں مبتلا ہوتا ہے۔ شائد اسکو اپنی دولت چھن جانے کا خوف ہوتا۔ اب غریب کے پاس تو اتنی دولت نہیں اُس کو تو خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ اُس کو کیا چیز خوفزدہ کرتی ہے۔ اُس سے پوچھا جائے تو شاید وہ اس کا جواب یوں دے گا کہ ہمیں غربت اور فاقے خوفزدہ کرتے ہیں۔
ہاں اگر کسی آدمی کو کوئی کام کرانا ہے اور اس سلسلے میں اس نے کسی ادارے میں جانا ہے تو خوامخواہ خوف کا شکار ہو گا آیا یہ کام ہو گا کہ نہیں۔ یہ ایک عام آدمی کی بات ہے ہاں اگر کوئی بڑا آدمی ہو تو اُس کے لئے کام کرنا اداروں کے لئے آسان ہو گا مگر خود ادارے کے لوگ اُس سے ڈر جائیں گے کہ اس کا کام کر دو ورنہ نوکری جا سکتی ہے۔ یعنی اُن کو بھی خوف کی بیماری کا حق ہوتی ہے۔
ہم کہیں کہ گنہگار آدمی تو خوفزدہ ہو سکتا ہے۔ اُس کو اپنے کئے ہوئے اعمال یاد آتے ہوں مگر بعض اوقات نیک لوگوں کو بھی دیکھا ہے۔ اُن کے اندر بھی یہ کیفیت بہت پائی جاتی ہے یعنی خوف خدا۔ یہاں بھی پھر خوف کا ذکر آ گیا۔ انسان بعض اوقات سب کچھ ٹھیک کرتا ہے دن بہت اچھا گزر رہا ہوتا ہے۔ لیکن اک انجانے خوف کا شکار ہوتا ہے۔ کوئی اتنا پیسہ خرچ کر کے بیٹی کی شادی کرتا ہے تو وہ بیٹی کے اچھے نصیب اور قسمت کی دعا مانگتا ہے۔ لیکن وہ بھی اندر اندر اک خوف کا شکار ہوتا ہے۔ دلہن لانے والے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ اللہ کرے یہ بہو نہیں بلکہ ہماری بیٹی بن کے رہے۔
بہرحال خوف کسی نہ کسی حوالے سے انسان کو چپکا ہوا ہے یہ بیماری کوئی خاص جراثیم تو نہیں رکھتی لیکن تقریباً تمام انسانوں کو لگی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں اک چھوٹی سی کہانی ہے کہ
اک بھیڑیا بہت بھوکا تھا وہ خوراک کی تلاش میں مارا مارا پھرنے لگا آخر اُسے دریا کے کنارے اک مری ہوئی بطخ نظر آئی وہ فوراً کھانے کے لئے دوڑا لیکن ابھی کھانا شروع ہی کیا تھا کہ اچانک کہیں سے ڈھول بجنے کی آواز اُس کے کان میں پڑی اُس نے بطخ کو وہیں چھوڑا اور دور بھاگنے لگا لیکن اُس نے کچھ فاصلہ طے کیا ہی تھا کہ اس نے سوچا مجھے ڈرنا نہیں چاہئے بلکہ جا کر وہ بطخ کھا لوں وہ واپس آیا اس نے اُسی ڈھول کی آواز میں بطخ کھائی اور اسے کچھ نہ ہوا اور وہ اپنے خوف پر خود ہی ہنسنے لگا۔ کہ یہ تو معمولی بات تھی میں ایسے ہی ڈر گیا۔ بات یہی بھلی کہ انسان سب خوف چھوڑ دے دل میں صرف اک خوف خدا رکھے تو کامیاب ہو سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...