ایک ’پولٹری فارم‘ پر ایک نیا‘ زیادہ تعلیم یافتہ‘ لہٰذا زیادہ سفاک ویٹنری ڈاکٹر منتظم بن کر آیا تو اُس نے آتے ہی تمام ’کارکنوں‘ کا مشترکہ اجلاس طلب کر لیا اور حکم صادر فرما دیا کہ آئندہ تمام ’کارکن‘ خیال رکھیں گے کہ آئندہ اُنہیں سات دن میں فی مرغی سات نہیں بلکہ 28 انڈے حاصل کرنا ہیں!
لہٰذا پورا ’پولٹری فارم‘ ایک ’ڈربہ‘ قرار پا گیا۔ اسے دن دیہاڑے بتیاں بجھا کر تاریک کر دیا جاتا اور 6 گھنٹے بعد چکا چوند مچا دینے والے بلب جلا کر دن چڑھا دیا جاتا‘ رات کی تاریکی پھیلتے ہی مرغیاں سو جاتیں اور اچانک دن چڑھا دئیے جانے پر ہڑبڑا کر جاگ اُٹھتیں اور جبلّی عادت کے تحت ’انڈہ‘ دے دیتیں‘ یہ عمل جاری و ساری تھا اور تمام کارکن مرغیاں پوری دیانت داری سے اپنے فرائضِ منصبی ادا کر رہی تھیں‘ حالانکہ وہ دن رات کی گردش میں دَر آئی موجودہ تیز رفتاری پر بہت پریشان تھیں! ایک عجب حیرانی کا عالم محیطِ در و بام تھا کہ پولٹری فارم کا منتظم جسے سخت گیر کی نسبت ’ظالم‘ کہنا بہتر ہو گا اُدھر آ نکلا اور ایک ’کارکن‘ پر اپنا مخصوص لب و لہجہ آزماتے ہوئے‘ اُس سے اُس کی ’کارکردگی‘ دریافت کی تو اُس نے گھبرا کر‘ اُسی وقت‘ اُسی جگہ ایک ’انڈہ‘ عرض کر دیا!
’صرف ایک انڈہ؟ ہفتے میں 28 انڈے دینا ہوتے ہیں؟‘ منتظم حلق کے بل چلایا تو ’کارکن‘ نے دونوں پَر جوڑتے ہوئے کہا ’اگر حضور ذرا بھی متوجہ ہوتے تو جان جاتے کہ میں نے یہ ’انڈہ‘ محض تعمیلِ ارشاد میں عرض کیا ہے‘ ورنہ اِس خاکسار میں یہ اہلیت تھی ہی نہیں! میں تو ’مرغ‘ ہوں!‘
میجر محمد عامر ریٹائرڈ نے رات گئے فرمایا کہ اگر ’میثاقِ جمہوریت‘ پر پورے خلوصِ دِل سے عملدرآمد کیا جائے اور ہمارے سیاستدان ’جی ایچ کیو‘ میں انڈے دینا بند کر دیں تو پاکستان میں جمہوری عمل کبھی پٹڑی سے نہیں اُتارا جا سکے گا!
بات تو سچ ہے‘ مگر بات ہے رُسوائی کی! ہمارے سیاستدان ’میثاق جمہوریت‘ سے پہلو بچا کر انڈے پر انڈا دئیے جا رہے ہیں مگر یہ وہ انڈے نہیں‘ یہ تو ’خاکی انڈے‘ ہیں جنہیں علامہ مشرقی کے صاحبزادے کی خاکسار تحریک تک قبول کرنے کے لئے تیار نہیں! کیونکہ کوئی کام کی بات تو اِن کی کسی ’تخلیق‘ میں ہوتی ہی نہیں!
ہمارے ہاں گراں گوش غزل نگار حضرات کی طرح ہمارے سبکدوش سیاست کار بھی زمانے بھر کی ہوٹنگ سمیٹ کر خوش خوش گھر لوٹ آتے ہیں‘ جوشِ کلام پر سامعین کے گرم جوش ردِّعمل پر ’داد‘ کا گمان کرتے ہوئے یہ تمام ’سبکدوش سیاست کار‘ اپنے آپ کو ’’ٹاک شاک‘‘ کا ماہر سمجھنے لگتے ہیں‘ جناب شوکت ترین کے ہاتھوں جناب شیخ رشید محض اعداد و شمار کے بھنور سے کترانے کی کوشش کرتے کرتے بیچ منجھدار جان ہار گئے! یہ جنابِ نوازشریف کے خلاف انتخاب کیا خاک جیت پائیں گے؟
ہم جناب محمد عامر سے ایک بات پر اتفاق کرتے ہوئے بات آگے بڑھانے سے پہلے اُنہیں کے الفاظ دہرائیں گے‘ ’جمہوریت ڈی ریل ہو رہی ہے!‘ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ’کارِ خیر‘ میں اسرائیلی سرمایہ کاروں کے ’فرنٹ مین‘ اپنے اپنے چینلوں کے ذریعے پُورا پورا حصہ بھی ڈال رہے ہیں! ورنہ جناب محمد عامر یہ نہ کہتے‘ ’مجھے بلایا ہے تو میری بات بھی سنیے!‘ جناب یٰسین ملک یہ نہ کہتے‘ ’مجھ سے بھارتی اداروں کی طرح سوال نہ کریں!‘ اور پھر یہ کہ ’مجھ پر بھارتی الزامات نہ لگائیں!‘
اور جنابِ محمد عامر کی یہ بات غور سے سنی اور سُنوائی جاتی‘ ’میں نے ’کشمیر آزادی‘ کا امریکی منصوبہ ناکام بنایا!‘ ’انڈی پینڈنٹ کشمیر‘ کے امریکی منصوبے کی تفصیلات میں جائے بغیر اس بات سے سرسری گزر جانا اور بار بار صرف ایک بات پوچھتے رہنا کہ آپ اتنی دعوتیں کیسے کر لیتے ہیں؟ حتٰی کہ یوسف زئی بیٹا یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ ’پٹھان تو مہمان کیلئے جان بھی دے دیتا ہے‘ قرض اُٹھانا کون سی بات ہے کہ قرض لوٹا دیا جاتا ہے!‘ ’جرگہ‘ تو بات سمجھنے اور سمیٹنے کیلئے بلایا جاتا ہے نہ کہ خاک اُڑانے اور بدبُو پھیلانے کیلئے! یہ لب و لہجہ‘ یہ زبان‘ یہ بیان جناب سلیم بھائی کے شایانِ شان نہیں‘ یہ تو ’فتنوں‘ کیلئے ڈھالا گیا ہے اور اُنہیں بھی زیب دیتا ہے!
لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ ’سیاست کاروں‘ سے ساتھ ساتھ ’میڈیا۔ زاروں‘ پر بھی لازم آتا ہے کہ وہ ’جی ایچ کیو‘ میں انڈے دینے سے پرہیز کرنا شروع کر دیں تو ہمیں یقین ہے کہ ہم کچھ ایسا غلط مطالبہ نہیں کر رہے ہوں گے! ذرائع ابلاغ پر لازم آتا ہے کہ اب وہ عوام کیلئے ’قوت کا سرچشمہ‘ تسلیم کر لئے جانے کی نوید سنائیں‘ اُن کا حوصلہ بڑھائیں تاکہ پاکستان وہ توانائی حاصل کر سکیں جسے ہمارے ’دفاعِ وطن‘ کی بنیاد بننا ہے!
گولی پیشہ ورانہ تربیت یافتہ سپاہی چلاتے ہیں مگر ’جنگ‘ ہمیشہ شہری لڑتے ہیں‘ یہ سیدھی سی بات اب ہماری سمجھ میں آ جانا چاہئے اور یہ بات سمجھ آ جانے کے ثبوت کے طور پر اگر مشرف سے دستبردار ہونا پڑے تو ہمیں ہو جانا چاہئے! اب ہمیں مشرف کا کیا کرنا ہے؟ تین سال کی بات ہے‘ تین سال کے بعد سیدی بھی ’سوی ساوتری‘ قرار پا جائیں گے! بل آ رہا ہے! قیمت جیب میں رکھ لیں کہ ادا تو کرنا پڑے گا! سیاست کاروں کو‘ غلط کاروں کو‘ یا‘ قوم کو!
لہٰذا پورا ’پولٹری فارم‘ ایک ’ڈربہ‘ قرار پا گیا۔ اسے دن دیہاڑے بتیاں بجھا کر تاریک کر دیا جاتا اور 6 گھنٹے بعد چکا چوند مچا دینے والے بلب جلا کر دن چڑھا دیا جاتا‘ رات کی تاریکی پھیلتے ہی مرغیاں سو جاتیں اور اچانک دن چڑھا دئیے جانے پر ہڑبڑا کر جاگ اُٹھتیں اور جبلّی عادت کے تحت ’انڈہ‘ دے دیتیں‘ یہ عمل جاری و ساری تھا اور تمام کارکن مرغیاں پوری دیانت داری سے اپنے فرائضِ منصبی ادا کر رہی تھیں‘ حالانکہ وہ دن رات کی گردش میں دَر آئی موجودہ تیز رفتاری پر بہت پریشان تھیں! ایک عجب حیرانی کا عالم محیطِ در و بام تھا کہ پولٹری فارم کا منتظم جسے سخت گیر کی نسبت ’ظالم‘ کہنا بہتر ہو گا اُدھر آ نکلا اور ایک ’کارکن‘ پر اپنا مخصوص لب و لہجہ آزماتے ہوئے‘ اُس سے اُس کی ’کارکردگی‘ دریافت کی تو اُس نے گھبرا کر‘ اُسی وقت‘ اُسی جگہ ایک ’انڈہ‘ عرض کر دیا!
’صرف ایک انڈہ؟ ہفتے میں 28 انڈے دینا ہوتے ہیں؟‘ منتظم حلق کے بل چلایا تو ’کارکن‘ نے دونوں پَر جوڑتے ہوئے کہا ’اگر حضور ذرا بھی متوجہ ہوتے تو جان جاتے کہ میں نے یہ ’انڈہ‘ محض تعمیلِ ارشاد میں عرض کیا ہے‘ ورنہ اِس خاکسار میں یہ اہلیت تھی ہی نہیں! میں تو ’مرغ‘ ہوں!‘
میجر محمد عامر ریٹائرڈ نے رات گئے فرمایا کہ اگر ’میثاقِ جمہوریت‘ پر پورے خلوصِ دِل سے عملدرآمد کیا جائے اور ہمارے سیاستدان ’جی ایچ کیو‘ میں انڈے دینا بند کر دیں تو پاکستان میں جمہوری عمل کبھی پٹڑی سے نہیں اُتارا جا سکے گا!
بات تو سچ ہے‘ مگر بات ہے رُسوائی کی! ہمارے سیاستدان ’میثاق جمہوریت‘ سے پہلو بچا کر انڈے پر انڈا دئیے جا رہے ہیں مگر یہ وہ انڈے نہیں‘ یہ تو ’خاکی انڈے‘ ہیں جنہیں علامہ مشرقی کے صاحبزادے کی خاکسار تحریک تک قبول کرنے کے لئے تیار نہیں! کیونکہ کوئی کام کی بات تو اِن کی کسی ’تخلیق‘ میں ہوتی ہی نہیں!
ہمارے ہاں گراں گوش غزل نگار حضرات کی طرح ہمارے سبکدوش سیاست کار بھی زمانے بھر کی ہوٹنگ سمیٹ کر خوش خوش گھر لوٹ آتے ہیں‘ جوشِ کلام پر سامعین کے گرم جوش ردِّعمل پر ’داد‘ کا گمان کرتے ہوئے یہ تمام ’سبکدوش سیاست کار‘ اپنے آپ کو ’’ٹاک شاک‘‘ کا ماہر سمجھنے لگتے ہیں‘ جناب شوکت ترین کے ہاتھوں جناب شیخ رشید محض اعداد و شمار کے بھنور سے کترانے کی کوشش کرتے کرتے بیچ منجھدار جان ہار گئے! یہ جنابِ نوازشریف کے خلاف انتخاب کیا خاک جیت پائیں گے؟
ہم جناب محمد عامر سے ایک بات پر اتفاق کرتے ہوئے بات آگے بڑھانے سے پہلے اُنہیں کے الفاظ دہرائیں گے‘ ’جمہوریت ڈی ریل ہو رہی ہے!‘ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ’کارِ خیر‘ میں اسرائیلی سرمایہ کاروں کے ’فرنٹ مین‘ اپنے اپنے چینلوں کے ذریعے پُورا پورا حصہ بھی ڈال رہے ہیں! ورنہ جناب محمد عامر یہ نہ کہتے‘ ’مجھے بلایا ہے تو میری بات بھی سنیے!‘ جناب یٰسین ملک یہ نہ کہتے‘ ’مجھ سے بھارتی اداروں کی طرح سوال نہ کریں!‘ اور پھر یہ کہ ’مجھ پر بھارتی الزامات نہ لگائیں!‘
اور جنابِ محمد عامر کی یہ بات غور سے سنی اور سُنوائی جاتی‘ ’میں نے ’کشمیر آزادی‘ کا امریکی منصوبہ ناکام بنایا!‘ ’انڈی پینڈنٹ کشمیر‘ کے امریکی منصوبے کی تفصیلات میں جائے بغیر اس بات سے سرسری گزر جانا اور بار بار صرف ایک بات پوچھتے رہنا کہ آپ اتنی دعوتیں کیسے کر لیتے ہیں؟ حتٰی کہ یوسف زئی بیٹا یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ ’پٹھان تو مہمان کیلئے جان بھی دے دیتا ہے‘ قرض اُٹھانا کون سی بات ہے کہ قرض لوٹا دیا جاتا ہے!‘ ’جرگہ‘ تو بات سمجھنے اور سمیٹنے کیلئے بلایا جاتا ہے نہ کہ خاک اُڑانے اور بدبُو پھیلانے کیلئے! یہ لب و لہجہ‘ یہ زبان‘ یہ بیان جناب سلیم بھائی کے شایانِ شان نہیں‘ یہ تو ’فتنوں‘ کیلئے ڈھالا گیا ہے اور اُنہیں بھی زیب دیتا ہے!
لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ ’سیاست کاروں‘ سے ساتھ ساتھ ’میڈیا۔ زاروں‘ پر بھی لازم آتا ہے کہ وہ ’جی ایچ کیو‘ میں انڈے دینے سے پرہیز کرنا شروع کر دیں تو ہمیں یقین ہے کہ ہم کچھ ایسا غلط مطالبہ نہیں کر رہے ہوں گے! ذرائع ابلاغ پر لازم آتا ہے کہ اب وہ عوام کیلئے ’قوت کا سرچشمہ‘ تسلیم کر لئے جانے کی نوید سنائیں‘ اُن کا حوصلہ بڑھائیں تاکہ پاکستان وہ توانائی حاصل کر سکیں جسے ہمارے ’دفاعِ وطن‘ کی بنیاد بننا ہے!
گولی پیشہ ورانہ تربیت یافتہ سپاہی چلاتے ہیں مگر ’جنگ‘ ہمیشہ شہری لڑتے ہیں‘ یہ سیدھی سی بات اب ہماری سمجھ میں آ جانا چاہئے اور یہ بات سمجھ آ جانے کے ثبوت کے طور پر اگر مشرف سے دستبردار ہونا پڑے تو ہمیں ہو جانا چاہئے! اب ہمیں مشرف کا کیا کرنا ہے؟ تین سال کی بات ہے‘ تین سال کے بعد سیدی بھی ’سوی ساوتری‘ قرار پا جائیں گے! بل آ رہا ہے! قیمت جیب میں رکھ لیں کہ ادا تو کرنا پڑے گا! سیاست کاروں کو‘ غلط کاروں کو‘ یا‘ قوم کو!