گرد سی جم گئی ہے لہجوں پر

Sep 20, 2010

سفیر یاؤ جنگ
عارفہ صبح خان ۔۔۔
اس وقت جبکہ پاکستان حا لتِ جنگ میں ہے اور آزادی کے بعد سے اب تک آدھے سے زائد ملک ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ اکثر حصے امریکہ کے پاس گروی رکھ دئیے گئے ہیں ایک بارڈر پر بھارتی فوج اور افغان بارڈر پر تنازعات گولہ بارود بمباری ہے۔ ملکی سلامتی داﺅ پر ہے کیونکہ خیبر پی کے اور بلوچستان میں امریکی اڈے قائم ہیں یا ڈرون حملوں کی بھرمار ہے۔سندھ میں جنرل ضیاءالحق کے نظام اور باقیات کی وجہ سے آگ اور خون کا کھیل بند ہونے میں نہیں آتا۔ اسلام آباد تو وائٹ ہاﺅس اور پینٹا گون نے ہائی جیک کر رکھا ہے ۔رہ گیا پنجاب.... تو یہاں کبھی پروٹوکول کے مسائل ہیں کبھی سکیورٹی کے۔کبھی خودکش حملے ہیں تو کبھی ہڑتالیں ریلیاں مظاہرے جلسہ جلوس، اگر چار دن چین سے گزر جائیں تو لاہور سیاستدانوں کیلئے میدانِ جنگ بنا رہتا ہے جہاں سیاستدان لفظوں کی توپیں چلاتے ہیں اور ایسے ایسے بیانات داغتے ہیں کہ الامان! پاکستان غربت، مہنگائی، بیروزگاری،لوڈشیڈنگ ،افراط زر اور قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔سیلاب نے پاکستانی معیشت کو ایسا دھچکا لگا یا ہے کہ پاکستان دیگر ممالک سے رُبع صدی پیچھے چلا گیا ہے۔کسی ملک کے حکمران اور سیاستدان یوں ایک دوسرے پرکیچڑ نہیں اُچھالتے اور نہ ہی ایک دوسرے کے کچے چٹھے کھولتے۔جب پگڑیاں سروں پر سجنے کے بجائے ہاتھوں میں اُچھلنے لگیں تو وہ معاشرے انحطاط و زوال کا باعث بن جاتے ہیں۔حکمران اور سیاستدان قوم کی خدمت کرنے کے بجائے لفظی توپ خانہ کھول کر بیٹھ گئے ہیں۔ہر وقت کی بیان بازی اور الزام تراشی نے آج پاکستان کو کس قدر کمزور بنا دیا ہے کہ جس کا دل چاہتا ہے وہ پاکستان کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنے لگتا ہے۔دنیا کے200 طاقتور اور کمزور ترین ملکوں میں سے پاکستان واحد ملک ہے جو دراصل خود ” دہشت گردی“ کا شکار ہے جہاںہر روز پاکستانی اس طرح مارے جاتے ہیں جیسے حشرات الارض پاﺅں تلے روند دئیے جائیں یا زہریلے سپرے سے کیڑوں کو مار دیاجائے۔کوئی مرجائے تو لواحقین کو انصاف نہیں ملتا۔قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔کوئی عورت سونا پہن کر پیدل نہیں چل سکتی۔ کوئی باہر جائے تو واپسی تک خوف جکڑے رکھتا ہے۔ایک ایسا ملک جس کا خزانہ ہمیشہ خالی ملتا ہے لیکن پھر بھی ہر سیاستدان اقتدار میں آکر لوٹ مار کی نئی داستان رقم کرنے کیلئے بیقرار ہوتا ہے کیونکہ پاکستان میں کرپشن کے اتنے طریقے ہیں کہ سیاستدان خالی خزانے سے بھی برآمدگیاں کرلیتے ہیں اورکُڑک مرغی سے بھی سونے کے انڈے نکلوا لیتے ہیں ورنہ ورلڈ بنک، آئی ایم ایف، امریکی امداد اورکشکول زندہ باد.... جن کی وجہ سے ہر بار نئی حکومت آنے پر خزانہ لبالب بھر جاتا ہے اور آنیوالے حکمران قارون کامنہ چڑانے لگتے ہیں۔ کیا ہمارے سیاستدان بچے ہیں کہ ہر وقت لڑتے رہتے ہیں یا مخولیا فنکار ہیں کہ جُگت بازی کرکے اپنی سیاست کے تِن مُردہ کو گدگداتے رہتے ہیں۔ سیاست ایک سنجیدہ اورذمہ دارانہ فعل ہے لیکن سیاستدان اس طرح جملہ بازی کرتے ہیں جیسے وہ سیاستدان نہیں، فنکار ہیں حالانکہ اس محاورے سے بچہ بچہ واقف ہے کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں....یہی وجہ ہے کہ ابھی تک پاکستان میں کوئی آیت اللہ خمینی، ڈاکٹر مہاتیر محمد، ماﺅزے تنگ اور حسنی مبارک پیدا نہیں ہوابلکہ یہاں تو ہرروزکرپشن اورسکینڈل کی کہانیاں منظر عام پر آتی ہیں حد تو یہ ہے کہ ہمارے موجودہ لیڈروںنے اپنے معاصر لیڈروںسے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ وگرنہ ایک لمبی فہرست ہے ایسے لیڈروں کی جنہوں نے اپنے ممالک کو طاقت دولت عزت اور عظمت سے ہمکنار کردیا ہے۔ان میںسرفہرست ایرانی صدر محمود احمدی نژاد ،ترک وزیراعظم طیب اردگان،شام کے صدر بشارالاسد،اردن کے شاہ عبداللہ،سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ چین جاپان شمالی کوریا برطانیہ،فرانس، وینزویلا،کینیا اور یورپی یونین کے تمام ممالک کے صدور و وزرائے اعظم اپنے اپنے ملک کی ترقی و کامیابی کی علامت ہیں۔کینیا کے صدر مورتی کیبا کی نے حزب اختلاف کے رہنما رائلااوڈنگا سے محض اس بنیاد پر شراکت اقتدار کا معاہدہ کیا کہ وہ اپنے ملک کودنیا کے سامنے تماشہ نہیں بناناچاہتے تھے۔کینیا کے صدر نے جو کہا وہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کیلئے سیکھنے کا ایک بہترین سبق ہے۔مورتی کیباکی نے اپنے حریف رائلااوڈنگا کو وزیراعظم تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ” آئیے!سیاست کوایکطرف رکھ کر صرف کام کرتے ہیں اور ایک نئے کینیا کی تشکیل کرتے ہیں جہاں قانون و انصاف، آزادی و امن ہو اورجس کینیا کی دنیا عزت کرے“۔
سوال یہ ہے کہ یہ جذبہ ہمارے لیڈروں میں کیوں نہیں۔ اُن کی باتیں سُن کر مجھے یہ کیوں کہنا پڑا کہ....
گرد سی جم گئی ہے لہجوں پر
لفظ خالی ہوئے فصاحت سے
ایک پل کا نہیں بھروسہ یہاں
کتنے نزدیک ہیں قیامت سے
شہر رنج و بلا میں میرے خدا
جی رہی ہوں تیر ی عنایت سے
کاش! ہمارے لیڈر بھی عمر بن عبدالعزیز،ہارون الرشید،مامون الرشید،کمال اتاترک،اورنگزیب، عالمگیر، حیدر علی، ٹیپو سلطان، صلاح الدین ایوبی جیسے حکمران بننے کی کوشش کریں اور گفتار کے غازی بننے کے بجائے کردار و عمل کے غازی بنکر دکھائیں جیسا کہ حضرت سیف بن خالد، طارق بن زیاد،محمد بن قاسم،محمود غزنوی اور ظہیر الدین بابر تھے۔(ختم شد)
مزیدخبریں