بڑا مزا اس ملاپ میں ہے
جو صلح ہو جائے جنگ ہو کر
یہ خبریں کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اسی ماہ روس کے دورہ پر جا رہے ہیں اور روس کے صدر و لادی میر پیوٹن ا سی ماہ اسلام آباد آرہے ہیں، نہ صرف دنیا کے ممالک میں بلکہ اس خطہ کے ممالک کی سفارتی تعلقات کی تاریخ میں ایک ایسے باب کا اضافہ ہے، جس پر عالمی، خطہ کی قوتوں اور عوام کی نظریں بھی لگ جائیں گی۔ روس اور پاکستان کے تعلقات میں کبھی آسودگی نہیں رہی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی ممالک، وسطی ایشیا کے ممالک اور جنوبی ایشیا کے ممالک میں دھڑے بندی ہوگئی تھی۔ امریکہ اور سوویت یونین 2 بڑی طاقتیں ان ممالک میں اپنا اپنا اثرورسوخ بلکہ تسلط جما چکی تھیں۔
دنیا مغرب اور مشرق میں تقسیم ہوگئی تھی۔ پاکستان نے اپنے وجود کی نظریاتی تاریخ کے پس منظر میں مغرب یعنی امریکہ سے تعلقات استوار کئے اور سیٹو سینٹو کے معاہدوں میں شریک ہو کر امریکہ کی دوستی کا دامن تھام لیا تھا۔ اس دوستی کا پاکستان کو اقتصادی اور کچھ عسکری امداد کے تحفے ملتے رہے لیکن ہمارے معاشی و دفاعی استحکام کے کلیدی مسئلہ کے حل کرانے میں ہمیں امریکہ سے کوئی مو¿ثر امداد نہیں ملی جبکہ سوویت یونین نے ڈنکے کی چوٹ پر بھارت کی اقوام متحدہ میں بھی اور ہر بین الاقوامی فورم پر امداد کی تھی۔
سوویت یونین کے رہنما خروشیف نے 1957ءمیں سری نگر جا کر بخشی غلام محمد وزیراعلیٰ کشمیر کی دعوت میں واڈکا کے جام چڑھاتے ہوئے بخشی غلام محمد سے کہا کہ تھا کہ آپ ہمیں ان پہاڑوں سے آواز دیں گے، ہم آپ کی مدد کے لئے آجائیں گے۔ خروشیف نے اس کے بعد ایک موقع پر پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ ہم نے اپنے نقشہ میں پشاور پر سرخ نشان لگا رکھا ہے۔
بھارت نے کروٹ لی، سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ امریکہ اس حملہ کو ناکام بنانے میں اپنی عسکری و معاشی برتری کے ساتھ سامنے آیا۔ اس نے افغان مجاہدین کی بھرپور مدد کی۔ پاکستان بھی امریکہ کی دوستی میں یا اپنی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر اس جنگ میں الجھ گیا۔ اس جنگ میں امریکہ کا ایک سپاہی بھی کام نہیں آیا جبکہ افغانستان اور پاکستان کے ہزاروں مجاہدین اس جنگ میں کام آئے۔ سوویت یونین کو شکست ہوئی۔ امریکہ نہایت چپکے سے افغانستان اور پاکستان سے ہاتھ ملائے بغیر نکل گیا۔
تاریخ نے پھر کروٹ لی اور امریکہ نے خود افغانستان پر حملہ کر دیا۔ پاکستان کے فوجی حکمران کی غلط حکمت عملی کے باعث پاکستان پھر اس جنگ میں الجھ گیا۔ اس کی کوکھ سے دہشت گردی کی ایسی زور دار لہر پیدا ہوئی کہ صرف پاکستان کے 40 ہزار افراد اور 5 ہزار فوج کے جوان جن میں جرنیل تک شامل ہیں، اس پرائی جنگ میں قربان ہوگئے۔ امریکہ نے پاکستان سے پھر طوطا چشمی دکھائی۔
2004ءمیں امریکی صدر بش نے اپنے دوبارہ صدر منتخب ہونے پر واشنگٹن میں سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں جس میں ہمارے فوجی صدر پرویز مشرف بھی موجود تھے، خود تسلیم کیا تھاکہ پاکستان کو شکوہ ہے کہ ہم نے اس سے وفا نہیں کی ،ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ امریکہ کے موجودہ صدر بارک اوباما نے بھی اپنے صدر منتخب ہونے پر خطاب میں یقین دلایا تھا کہ پاکستان کو شکایت کا موقع نہیں دیں گے لیکن پاکستان پر بے وفائی اور طوطا چشمی کے کیسے کیسے زخم لگے ہیں ،اس سے دنیا آگاہ ہے۔
امریکی بے وفائی کے اس دل خراش تناظر میں روس سے پاکستان کے تعلقات کی تجدید ہو رہی ہے۔ بظاہر یہ تعلقات اقتصادی تعاون بڑھانے تک محدود ہوسکتے ہیں لیکن ا فغانستان کی موجودہ جنگ اور امریکہ کی اس میں پوزیشن کے پیش نظر روس سے ہمارے تعلقات کی سطح فی الحال ”تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو“ والی ہو گی۔ روس نے اپنے صدر ولادی میر پیوٹن کی قیادت میں اپنے آپ کو سنبھالا ہے۔ صدر زرداری نے روس کا دورہ کیا ہے۔ ہماری وزیر خارجہ حنا ربانی کھر بھی ماسکو گئی تھیں۔ امریکہ سے پاکستان کے تعلقات کی گرہیں مضبوط ہیں، ان میں رخنے امریکہ کی طرف سے پیدا کئے جاتے ہیں۔ امریکہ کی سب سے بڑی شرارت بھارت کے اثرورسوخ کو افغانستان تک بڑھانا ہے، اس شرارت کے ردعمل کے طور پر روس سے تعلقات کی تجدید نہیں کی جا رہی۔ پاکستان کو اپنے قریبی ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر رکھنے ہوں گے۔
دل نے آنکھوں سے کہی آنکھوں نے ان سے کہہ دی
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے