19ستمبر کا دن ایک بار پھر اس معاہدے کی یاد دلاتا ہے جس کی وجہ سے دنیا کی زرخیز ترین راوی بیاس اورستلج کی وادی کو اپنے دریاو¿ں سے محروم ہونا پڑا۔عالمی قوتوں کی ایما ءپر ورلڈ بینک نے کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے کو عملی شکل دی۔ چنانچہ تینوں دریا مکمل طور پر بھارت کے حوالے کر دیئے گئے جبکہ انڈس بیسن کے بقایا تین دریاو¿ں سندھ جہلم اور چناب پر پاکستان کا حق تسلیم کرتے ہوئے کشمیر کی کچھ یوٹیلیٹیز کا حق بھارت کو دیا گیا۔ لیکن افسوس بھارت اس معاہدے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ٹریک ٹو پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان کے زرخیزوادیوں کو بنجر بنانے کی سازش پر عمل کیا جا رہا ہے۔ایک طرف پاکستانی پانیوں پر بڑی تعداد میں ڈیم بنائے جا رہے ہیں۔ دوسری طر ف پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بڑے ڈیموں کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے ۔ بگلیہار ڈیم میں ورلڈ بینک کے نیٹول ایکسپرٹ کے متنازعہ فیصلے سے بھی پاکستان کونا قابل تلافی نقصان پہنچا ۔ جس کی تصدیق کشن گنگا کیس میں عالمی عدالت نے بھی کی۔ مسئلہ کشمیر ، فلسطین، سر کریک اور ایسے ہی بے شمار مسائل پر UNOکا کردار انتہائی نا قابل فہم اور اپنے منشور کی خلاف ورزی ہے۔ اگر عالمی معاہدوں کی ایسی ہی دھجیاں اُڑائی جاتی رہیں تو اقوام متحدہ کا کردار لیگ آف نیشنز کی طرح نا کام ہو جائے گا۔ جس کے نتیجے میں تیسری عالمگیر جنگ دُنیا کے امن کو برباد کر دے گی۔ انسان ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی تباہی کو بھول جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی معاہدوں پر ان کی اصل روح کے مطابق انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
سندھ طاس معاہدہ میں کشمیر کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان نے کھلے دل کے ساتھ اس کی ضروریات کو سندھ طاس معاہدے کا حصہ بنایا۔ اسی طرح بہتے پانیوںپر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بنانے کی بھی اجازت دی گئی۔ لیکن کہیں بھی کسی سٹوریج کا ذکر نہیں۔بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پورا پانی پاکستان کوریلیز کرے مگر ریکارڈ کا ملاحظہ کیا جائے تو پاکستان کے دریاﺅں پر بھارتی ڈیموں کے بد اثرات پوری طرح نظر آتے ہیں۔ بالخصوص بگلیہار ڈیم بننے کے بعد دریائے چناب پر پانی کی ترسیل میں جو رکاوٹیں پیدا ہوئیں اس سے ہیڈ مرالہ کے ذریعے راوی بیاس اور ستلج کی متاثرہ آبادی کو سیراب کرنے والی نہروں میں پانی کی کمی ہوئی۔ بوائی کے وقت پانی کی عدم فراہمی پورے سیزن کی کاشت کو متاثر کرتی ہے۔ چنانچہ پنجاب میں کپاس اور چاول کی کاشت بُری طرح متاثر ہوئی۔
سندھ طاس معاہد ے کے مطابق کشمیر کی چندیوٹیلیٹیز کے علاوہ دریائے سندھ ،جہلم اور چناب پر پاکستان کا حق پوری طرح تسلیم کیا گیا ۔البتہ دریائے جہلم پر بھارت کو ایک آرٹیکل کے تحت یہ حق دیا گیا کہ اگر کسی ٹریبوٹری پر پاکستان کا کوئی Usesمتاثر نہ ہو تو وہ ٹریبوٹری کا رُخ دوسری ٹریبوٹری کی طر ف بدل سکتا ہے۔ اگر اس کیس میں حقائق کو مدنظر رکھا جاتا تو عالمی عدالت کا فیصلہ پاکستان کے حق میں ہوتا۔ کیونکہ 1990ءمیں نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کا منصوبہ وجود میں آ چکا تھا ۔ بعد ازاں واپڈا نے اس کی تعمیر کے لئے ٹینڈربھی طلب کیے۔ لیکن کوئی پارٹی نہ آئی تو اپنے وسائل سے اس پراجیکٹ کی تکمیل کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ 10پیسے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کے بلوں میں نیلم جہلم سرچارج (NJS)لگا دیا گیا۔ بھارت نے بعد میں کشن گنگا ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا ۔ اگر عالمی عدالت ان حقائق کو مد نظر رکھتی تو بھارت کے حق میں فیصلہ نہیں ہو سکتا تھا۔
یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ مرزا آصف بیگ انڈس واٹر کمشنر پاکستان کی حیثیت سے فریق تھے۔ لیکن ساری ذمہ داری سابق صدر زرداری کے دست راست کمال مجید اللہ کی تھی جن کا تعلق سندھ سے ہے۔ ان کے بارے میں جماعت علی شاہ کہتے ہیں وہ برٹش نیشنلٹی ہولڈر تھے۔ یہی نہیں، پاکستان میں ڈیم بنانے کی ذمہ داری واپڈا کی ہے۔ اس لحاظ سے واپڈا اس کیس میں اہم سٹیک ہولڈر تھا ۔لیکن واپڈا کے سندھی چیئرمین راغب شاہ کہیں دکھائی نہیں دیئے۔ اسی طرح ایک بات خصوصی طور پر نوٹ کرنے کی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی متاثرہ وادی کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔ چنانچہ سندھ طاس معاہدے میں پنجاب کی اہمیت بطور سٹیک ہولڈر سب سے زیادہ اہم ہے۔ اگر دریائے جہلم اور چناب پر بھارت کوئی چھیڑ چھاڑ کرے تو اس کے بُرے اثرات صرف پنجاب پر وارد ہوں گے۔ مگر کشن گنگا کیس میں پنجاب کے متعلقہ شعبہ اری گیشن کے ڈائریکٹر انڈس واٹر ٹریٹی کہیں نظر نہیں آئے، نہ ہی ان کے لی جنڈ سینئر کنسلٹنٹ سے استفادہ کیا گیا۔ کشن گنگا کیس میں پنجاب اور واپڈا کی بطور سٹیک ہولڈر ز شمولیت انتہائی ضروری تھی۔ مگر انہیں نظر انداز کر کے پاکستان کے مفادات سے غداری کی گئی۔
میاں نواز شریف نے پالیسی بیان دیتے ہوئے اعلان کیا کہ توانائی منصوبوں میں سیاست نہیں کرنے دی جائے گی ۔ انتہائی خوش آئند بات ہے ۔ کالا باغ ڈیم نہ صرف توانائی کا اہم ترین منصوبہ ہے بلکہ سندھ طاس معاہدے کا لازمی جزو بھی ہے۔ لیکن اسے سیاسی طور پر متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ منصوبہ چاروں صوبوں کے لئے انتہائی مفید ہے۔ اس کے بغیر راوی، بیاس اور ستلج کی متاثرہ وادی کو فیڈ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ 2004ءمیں اعلیٰ سطحی ٹیکنیکل کمیٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں انڈس کے پانی کو چناب جہلم زون کو سیراب کرنے کے حوالے سے سندھ طاس معاہدے کا خصوصی ذکر کیا ہے۔ ہمیں اُمید ہے میاں نواز شریف اپنے اعلان کے مطابق توانائی کے منصوبوں میں سیاسی ریشہ دوانیوں سے متاثر نہ ہوں گے۔ اور پاکستان کے مفادات کے حق میں فیصلہ کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی سندھ طاس معاہدے پر مکمل عمل درآمد کے لئے بہتر ٹیم کا تقرر کیا جانا ازحد ضروری ہے۔ اس میں اہم سٹیک ہولڈر اور متاثرہ فریق کی حیثیت سے پنجاب کے کردار کا تعین بھی بہت ضروری ہے۔