”تمغہ جمہوریت“ اور ”خلافت راشدہ!“

وزیراعظم نواز شریف کو صدر جمہوریہ ترکیہ جناب عبداللہ گل کی طرف سے ”تمغہ¿ جمہوریت“ سے نوازا گیا ہے جو جمہوریہ ترکیہ کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ اس طرح صدر ترکیہ نے نہ صرف میاں نواز شریف بلکہ اہل پاکستان کی بھی عزت افزائی کی ہے۔ برادر ملک ترکیہ کے ساتھ ہمارا تعلق، اس وقت سے ہے جب ترکی ”جمہوریہ“ نہیں تھا اور ہم بھی متحدہ ہندوستان کے شہریوں کی حیثیت سے عثمانی ترک خلیفہ کو ”خلیفہ اسلام“ اور اپنا بھی امیر المومنین“ تسلیم کرتے تھے اور جب جنرل مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں ترکیہ کی گرینڈ نیشنل اسمبلی نے ”خلافت“ کی تنسیخ کے بعد ترکیہ کو جمہوریہ قرار دے دیا تو علامہ اقبال کی اس رائے کے مطابق کہ ”مسلمان ملک کی منتخب قومی اسمبلی کو ہی اہم معاملات میں ”اجتہاد“ کا حق حاصل ہے“ جمہوریہ ترکیہ میں خلافت کی تنسیخ کو تسلیم کر لیا۔ مصطفی کمال پاشا جو اپنی قومی خدمات کی وجہ سے”اتاترک“(ترکوں کے باپ) کہلائے۔ ہمارے بھی ہیرو تھے۔ ان کی تصویریں ہمارے گھروں اور دکانوں میں لگی ہوتی تھیں۔
اتاترک اور بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ میں ایک قدر مشترک یہ تھی کہ دونوں نے اپنی اپنی جائیداد قوم کے نام وقف کر دی تھی۔ اقتدار میں آ کر جائیداد بنانے یا دولت جمع کرنے کا تو تصور ہی نہیں تھا۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ مدینہ کے عام مزدور کے برابر تنخواہ لیتے تھے انہوں نے اپنے دور خلافت میں کل 6ہزار درہم بطور تنخواہ وصول کئے تھے اور وصیت کر دی تھی کہ”میری جائیداد فروخت کر کے 6 ہزار درہم بیت المال میں جمع کرا دیئے جائیں“۔ خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطابؓ کو کھلے عام اپنے لمبے کرتے کے کپڑے کا حساب دینا پڑا، خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ نے اپنے زیادہ تر وسائل قوم کی فلاح کےلئے وقف کر دیئے تھے اورخلیفہ چہارم حضرت علی مرتضیٰ اپنے خلاف یہودی کے مقدمے میں قاضی¿ وقت کی عدالت میں پیش ہو گئے تھے۔ انہوں نے کوئی استثناءنہیں مانگا اور نہ ہی عدالت میں کرسی طلب کی ”اسلامیہ جمہوریہ پاکستان“ میں ہر صدر کو ہر معاملے میں استثنا حاصل ہے۔خلافت راشدہ خلفائے راشدین کے ساتھ ہی ختم ہو گئی تھی پھر خلافت کے نام پر ملوکیت کا دور رہا۔300 کنیزوں کے حرم کو چھوڑ کر جب (عثمانی ترک) آخری ”خلیفہ اسلام “ سلطان وحید الدین خلافت منسوخ ہونے کے بعد انگریزوں کی پناہ میں گیا تو اس کے مصاحبِ خاص خواجہ سراءنے اس کے ہیرے جواہرات کا بھاری صندوق اٹھا رکھا تھا دنیا کے کئی ملکوں میں حکومت کے اندر اور باہر کئی لیڈروں نے ”خلافت“ قائم کی لیکن عالم اسلام نے اسے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ افغانستان میں”امیرالمومنین“ ملا عمر اب واحد ”خلیفہ“ نہیں جن کی کابل میں حکومت نہیں ہے قیام پاکستان کے بعد کئی مذہبی سیاسی قائدین نے انتخابات میں حصہ لے کر اور فوجی آمروں کی حمایت کر کے”خلافت راشدہ“ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ عوام کی حمایت حاصل نہیں کر سکے۔ اسلئے کہ جب ووٹ کی بنیاد پر پاکستان بنانے کی تحریک چل رہی تھی تو یہ سب قائدین اس کی مخالفت کر رہے تھے۔
جمہوریہ ترکیہ فوج نے بنایا تھا لیکن جمہوریہ پاکستان، قائداعظم کی قیادت میں پرامن اور عام مسلمانوں نے فوج کئی برسوں تک جمہوریہ ترکیہ میں سیاہ و سفید کی مالک رہی، لیکن اب وہ حاشیے پر ہے۔ ہمارے یہاں بھی 2008ءکے عام انتخابات کے بعد فوج نے ”جمہوریت“ پر شب خون مارنے کی کوشش نہیں کی۔ فرق یہ ہے کہ جمہوریہ ترکیہ ایک ترقی یافتہ، خوشحال، خود مختار اور آزاد ملک ہی رہا ہے۔ لیکن دہشت گردوں کے 70/60 گروہوں کی طرف سے سب سے زیادہ چیلنج حکومت کو رہا ہے اور ہے، یہاں تک کہ کوئی بھی حکومت اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی اہل نہیں رہی۔ جمہوریہ ترکیہ میں صدر عبداللہ گل اور وزیراعظم طیب اردگان کی رفاہ پارٹی نے ترکیہ میں جمہوریت کے ذریعے عوام کو ترقی اور خوشحالی کے ساتھ ساتھ ان کی جان و مال کے تحفظ کی ضمانت بھی دے رکھی ہے۔ باغی کردوں کے ساتھ مذاکرات بھی کئے جاتے ہیں لیکن جمہوریہ ترکیہ کے آئین کے تحت اور مشروط طور پر۔
پاکستان میں جو مذہبی سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں ”نفاذ اسلام“ کا نعرہ لگا کر کبھی بھی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہیں کر سکیں۔ ان کے قائدین کی تمام تر ہمدردیاں ان گروپوں کے ساتھ ہیں جو قائداعظم کے پاکستان میں ہتھیاروں کے بل پر ”خلافت راشدہ“ یا ”حقیقی اسلام“ نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے سابق رکن اور ”جہاد کونسل“ کے چیئرمین جناب جاوید ابراہیم پراچہ کا ہر روز کسی نہ کسی نیو چینل پر انٹرویو نشر ہو رہا ہے۔ پراچہ صاحب تحکمانہ لہجے میں بات کرتے ہیں۔ ملا عمر کو ”امیر المومنین“ تسلیم کرتے ہیں اور پاکستان میں ”خلاف راشدہ“ کے قیام پر زور دیتے ہیں لیکن عام انتخابات کے ذریعے نہیں، تو پھر کیسے؟ پراچہ صاحب کا فتویٰ ہے کہ ”پاکستانی میڈیا کے اکثر لوگ امریکہ کے لئے کام کر رہے ہیں“۔
 پوری قوم میجر جنرل ثناءاللہ خان نیازی کرنل توصیف احمد اور لانس نائیک عرفان ستار کو”شہید“ قرار دے رہی ہے لیکن پراچہ صاحب خاموش ہیں۔
طالبان کی طرف سے اعلان کر دیاگیا ہے کہ ”پاک فوج کے افسروں اور جوانوں پر حملے بند نہیں کئے جائیں گے“ تو کیا پاک فوج اس طرح کے حملوں کو برداشت کرتی رہے گی؟ جاوید ابراہیم پراچہ صاحب کا کہنا ہے کہ ”وفاقی وزارت داخلہ کے افسران اور طالبان کے نمائندے، جیلوں میں قید ان دہشت گردوں کی فہرستیں تیار کر رہے ہیں کہ کن کن کو ضمانتوں پر اور کن کن کو اپیلوں کی بنیاد پر رہا کرایا جائے“ اور اس کے بعد بھی حکومت اور طالبان (یا دہشت گردوں کے مختلف گروپوں) کے مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو؟
 وزیر اعظم نواز شریف نے جمہوریت کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ اب تو انہیں برادر ملک جمہوریہ ترکیہ سے ”تمغہ جمہوریت“ بھی مل گیا ہے اگر انہوں نے مذاکرات سے قبل(مختلف جرائم میں ملوث) جیلوں میں قید دہشت گردوں کی رہائی اور فاٹا سے پاک فوج کی واپسی کا مطالبہ تسلیم کر لیا تو کیا عسکری قیادت کےلئے یہ صورت حال قبول ہو گی؟ اگرچہ یہ مشکل فیصلہ ہو گا، لیکن اس میں دیر لگانا مناسب نہیں ہے کہ جمہوریت کو فروغ دے کر اور عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے ہمکنار کر کے ان سے بھی ”تمغہ جمہوریت“ حاصل کیا جائے یا مملکت کے باغیوں کو ”خلافت راشدہ“ قائم کر نے دی جائے۔

ای پیپر دی نیشن