سفارت خانہ یا کارخانہ

سفارت خانہ یا کارخانہ

کابل میں امریکی سفارت خانے کے اندر داخل ہوتے ہی پاکستانی وفد حیران رہ گیا۔ چودھری شجاعت نے بے ساختہ کہہ دیا کہ یہ سفارت خانہ ہے یا کوئی کارخانہ ہے۔ اتنی مشینری جدید ٹیکنالوجی، آلات اور نجانے کیا کیا وہاں موجود تھا۔ چودھری صاحب نے پھر ایک برجستہ سوال امریکی سفارت کار سے کر دیا۔ لگتا ہے آپ کا یہاں سے جانے کا ارادہ نہیں ہے۔ امریکی سفارت کار کے منہ سے بھی سچ نکل گیا۔ ہمارا ارادہ یہاں سے جانے کا نہیں ہے۔ یہ بھی ایک سوال ہے جس پر غور کرنے سے آدمی لاجواب تو ہو سکتا ہے مگر کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔
امریکہ کے علاوہ افغانستان میں بھارت کے متعدد سفارت خانے ہیں۔ اس کا مصرف صرف سفارت کاری تو نہیں ہے۔ ایک چھوٹے سے ملک میں اتنے زیادہ سفارت خانے بہرحال پریشانی کا باعث ہیں؟ بھارت کے اتنے سفارت خانے امریکہ میں نہ ہوں گے۔
بھارت افغانستان میں بہت سرمایہ کاری کر رہا ہے شاید یہ بھی سفارت کاری سے ملتی جلتی کوئی چیز ہے؟ بھارت افغانستان میں رہنا چاہتا ہے مگر بھارت کا انداز بھی حاکمانہ ہے اور افغانوں نے کسی غیر ملکی کو اپنے ملک میں ٹکنے نہیں دیا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ جب بھی افغانستان میں کوئی جینوئن حکومت آئی تو سب کو وہاں سے نکلنا پڑے گا۔ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف جو کچھ کر رہا ہے سب کو پتہ ہے۔ ہم خود اپنے ملک پاکستان میں خلفشار، انتشار، دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں۔ دوسرے ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بلوچستان میں مداخلت کی شکایت سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی کی تھی۔ پھر اس کی اپنی ذاتی شکایتیں پاکستان کے اندر اتنی زیادہ ہو گئیں کہ وہ اس بات سے غافل ہو گئے۔ ورنہ مصر کے شہر شرم الشیخ میں من موہن سنگھ نے ان باتوں پر بات چیت کرنے کی حامی بھر لی تھی۔ سفارت کاری کے بہانے سے کسی ملک میں کچھ اور کام کرنا مناسب نہیں۔ اس طرح سفارت خانوں کی اہمیت اور حیثیت میں فرق آ جائے گا۔
پاکستان میں مختلف جگہوں پر دہشت گردی ہوتی ہے تو میڈیا بہت واویلا مچاتا ہے۔ یہ درست بھی ہے کہ ہماری انٹیلی جنس کی ناکامی ہے۔ مگر اب خود امریکہ میں دارالحکومت واشنگٹن میں وائٹ ہاﺅس کے قریب امریکی بحریہ کے ہیڈ کوارٹرز کے اندر گھس کر فائرنگ کی گئی۔ کیا اس واقعے کو دہشت گردی نہیں کہا جائے گا؟ یہاں امریکہ جیسے باخبر اور جاسوسی میں ماہر ملک کی انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں ہے۔ پاکستان میں کراچی کے نیول بیس پر حملہ ہوا تھا اور بہت نقصان ہوا۔ جس کے بارے میں کئی دنوں تک خبریں چلتی رہیں۔ تفصیلی پروگرام ہوتے رہے۔ وہ آدمی ماہرانہ تبصرے کرتے رہے جو اس فیلڈ کے نہیں ہیں اور زبانی کلامی ہوائی باتیں کرتے ہیں۔ امریکہ میں اس واقعے کے لئے صرف خبر آئی ہے اور اس کے علاوہ کوئی شور نہیں مچا۔ پاکستان میں بھی اس کا تذکرہ نہیں ہوا۔ ہم صرف اپنی کمزوریوں نااہلیوں کا ذکر کرتے ہیں اور اسے ناکامیوں کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ حملہ آوروں میں کالے رنگ کے لوگ بھی تھے۔ کیا کسی نے کہا کہ وہ صدر اوبامہ کے قبیلے کا آدمی ہے؟ قوموں کا رویہ ہمیشہ مثبت اور قومی ہوتا ہے۔ اس سے سیاسی یا ذاتی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ البتہ یہ ضرور ہو گا کہ امریکہ میں تھنک ٹینک اور دوسرے ادارے اس حوالے سے غور کریں گے اور کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔ امریکی سکولوں اور دوسری ایسی جگہوں پر اکا دُکا ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ امریکی عوام امریکی حکام سے مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔ امریکی عوام تنقید بھی کرتے ہیں۔ شام پر حملے کے حوالے سے امریکی عوام میں بے چینی اور مایوسی پائی جاتی ہے۔
امریکہ میں ادارے مضبوط ہیں اور اپنی رائے میں آزاد ہیں۔ سوشل سوسائٹی اپنی جگہ ایک مقام رکھتی ہے۔ امریکی حکومت اب ایک مخمصے میں ہے۔ سی آئی اے پینٹاگان کانگرس سینٹ اور اس کے علاوہ یہودی لابی اور اسرائیل کا بھی اثر و رسوخ ہے۔ امریکی عوام بھی پوری طرح امریکی پالیسیوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اب امریکہ کے لئے معاملات سے نبٹنا اتنا آسان نہیں رہا۔ امریکہ اپنے اندرونی حالات میں بھی پھنسا ہوا ہے۔
یہ بھی ہوتا ہے کہ امریکہ میں اپنے صدر کے حوالے سے ردعمل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ صدر ابراہام لنکن اور پھر صدر کینیڈی کا قتل بھی بہت غور طلب ہے۔ حکومت کے اندر بھی کئی لابیاں ہیں۔ صورتحال سنجیدہ بھی ہے اور پیچیدہ بھی ہے۔ انٹیلی جنس کے حوالے سے یہ واقعہ امریکہ کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے کہ اتنی سکیورٹی اتنی انٹیلی جنس کے باوجود سب سے اہم شہر میں وائٹ ہاﺅس کے قریب امریکی بحریہ کے ہیڈ کوارٹر میں حملہ آور داخل ہوتے ہیں اور اپنی کارروائی بڑی آسانی سے کر لیتے ہیں۔
شکر ہے کہ حملہ آور سارے کے سارے امریکی تھے۔ اب امریکہ اس دہشت گردی کے لئے الزام کسی اور ملک پر نہیں لگا سکتا۔ بھارت کے سب سے بڑے لیڈر مسٹر گاندھی کو مارنے والا ہندو تھا۔ ورنہ بھارتی مسلمانوں کی شامت آ جاتی اور اُن پر اسی طرح قیامت توڑی جاتی۔ جیسے اندرا گاندھی کے سکھ قاتلوں کے بعد بے گناہ اور بے خبر سکھوں پر توڑی گئی۔ اندرا گاندھی کے قاتل خود اُن کے باڈی گارڈ تھے جنہوں نے امرتسر کے گولڈن ٹمپل پر ہندو فوج کے حملے کا بدلہ لیا تھا۔ اس ظلم و زیادتی کے باوجود اندرا نے اعتماد سکھوں پر کیا تھا۔ تب بھارت کا صدر بھی ایک سکھ سردار گیانی ذیل سنگھ تھا۔ اور اب اندرا کی بہو نے ایک سکھ من موہن سنگھ کو دو بار بھارت کا وزیراعظم بنایا ہے۔ یہ صورتحال بڑی گھمبیر ہے۔
امریکہ ایک بڑی طاقت ہے۔ اصل طاقت قانون کی طاقت ہوتی ہے۔ مگر طاقتور لاقانونیت کی طاقت استعمال کرنے میں زیادہ آسانی اور اعزاز سمجھتے ہیں۔ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے جنگ کا راستہ اختیار کرنے سے مایوسی پھیلتی ہے۔ لوگ بیزار ہو جاتے ہیں۔ خوف کی وجہ سے چُپ رہتے ہیں مگر اُن کے دل میں عزت اور مثبت جذبات پیدا نہیں ہوتے۔ زندگی میں آسودگی پیدا کرنے کے لئے بڑی ایجادات ہوتی ہیں۔ موت پھیلانے کے لئے بھی مہلک اسلحہ بنا لیا گیا ہے۔ جنگ کے بادل گہرے ہو رہے ہیں۔ پھر وہ لوگ بھی جو امن کے خواہاں ہیں۔ وہ بھی میدان میں نکل آتے ہیں۔ میرے خیال میں انسانی دل بڑے سے بڑے اسلحے سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ امن کے لئے جنگ اور سزا کی پالیسی ترک کر کے ہمدردی اور مدد کی کارروائی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ مشرق وسطیٰ اور برصغیر دہشت گردی کا شکار ہیں۔ دہشت گرد بھی یہاں پیدا کئے جا رہے ہیں۔ جنگ جب بھی ہو۔ باہر کی طاقتوں کا ارادہ اور منصوبہ ہے کہ میدان جنگ پاکستان ہو۔ وہ قومیں اور لوگ جو کمزور ہیں وہ بھی سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ہم جب یونیورسٹی میں تھے تو ایک نعرہ لگتا تھا۔ نعرہ لگانے والے نوجوان طالب علم تھے۔ امن عالم کے لئے اک جنگ ہونی چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...