لاہور میں ایم پی اے کے بیٹے کا ولیمہ‘ 40 ہزار افراد نے شرکت کی۔
شادی نہ ہوئی کوئی میلہ ہو گیا۔ میلہ بھی ایسا ویسا نہیں۔ بھریا میلہ وکھری ٹائپ کا جس میں ناچ گانا‘ آتش بازی‘ کھانا پینا‘ رنگ برنگی بتیاں سب کچھ موجود تھا۔ اتنا بڑا اجتماع تو کسی نامی گرامی راجے مہاراجے کی شادی پر نہ ہوا ہو گا۔ یہ تو کسی سیاسی جماعت کا انتخابی اجتماع محسوس ہو رہا تھا۔ اگر اسے نقارہ خدا سمجھ لیں تو پھر اس ایم پی اے کی جیت یقینی ہے۔ راجے مہاراجے گزر گئے اب زمانہ نو دولتیئوں کا ہے۔ جو ہر جگہ اپنی انفرادیت اور ورائٹی دکھانے کے چکروں میں رہتے ہیں۔ لاہور میں ویسے ہی شوشا کچھ زیادہ ہی ہے۔ ہر کام میں شو بازیاں دکھانا یہاں کی عادت ہے۔ اب ان ایم پی اے کو ہی دیکھ لیں بیٹے کا ولیمہ اس سج دھج سے کیا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ ہزار دو ہزار نہیں دس یا بیس ہزار نہیں پورے 40 ہزار افراد ولیمہ میں شریک تھے۔ 55 ہزار کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ اتنا بڑا اہتمام تو مسلم لیگ (ن) یا پی ٹی آئی والے کر لیں تو اعلان ہوتا ہے کہ عظیم الشان جلسہ جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی جبکہ ان لاکھوں کے جلسے میں بھی کرسیاں 20 یا 30 ہزار ہی لگتی ہیں۔ شاید اس خوف سے کہ تحریک انصاف کے جلسوں نے ایک یہ نئی روایت بھی ڈالی ہے کہ لوگ کرسیاں ساتھ لے جاتے ہیں۔ اب معلوم نہیں ولیمہ کے بعد کرسیاں بچ گئیں یا کھانے کیساتھ ساتھ لوگ ان پر بھی ہاتھ صاف کر گئے۔ ویسے اتنا بڑا اجتماع اکٹھا کرنے کا مطلب ہے 2018ء کے الیکشن میں موصوف کی ٹکٹ اور جیت پکی ہے۔
٭…٭…٭…٭
2018ء میں عمران خان‘ اصغر خان بن جائینگے: رانا ثناء اللہ
رانا جی یہ بھی یاد رکھیں کہ اصغر خان کا کردار اس دور میں بھٹو حکومت کے خاتمے سے لے کر بھٹو کی پھانسی تک کتنا اہم رہا ہے۔ اب کہیں عمران خان بھی اصغر خان بن گئے تو اور کچھ ہو نہ ہو وہ رہیں یا نہ رہیں مگر کہیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو نہ لے ڈوبیں اور پھر سب
بھولی ہوئی ہوں داستاں گزرا ہوا خیال ہوں
جس کو نہ تم سمجھ سکے میں ایسا اک سوال ہوں
ہی کف افسوس ملتے رہ جائیں۔ خدا جانے ہمارے سیاستدانوں کو باہمی لڑائیوں سے فرصت کیوں نہیں ملتی۔ ان کی باہمی خانہ جنگی کی وجہ سے ہی بیرونی طاقتوں کو مداخلت کا موقع ملتا ہے۔ کیا آپ بھول گئے کہ ایم آر ڈی کی تحریک میں بھٹو کی پھانسی کے کچھ عرصہ بعد میں وہ تمام سیاسی جماعتیں جو پیپلز پارٹی کیخلاف متحد ہو کر تحریک چلا رہی تھی بھٹو حکومت کے خاتمے کیلئے‘ وہ سب ضیا آمریت کیخلاف یکجان تھیں۔ اب بھی اگر رانا جی عمران خان کو اصغر خان کے روپ میں دیکھنے کے خواہشمند ہیں تو انہیں مستقبل پر بھی نظر ڈالنا ہو گی کہ کہیں پھر کبھی انہیں بھی تحریک انصاف والوں کیساتھ مل کر سڑکوں پر نہ نکلنا پڑے۔ آجکل ویسے بھی سیاسی گرما گرمی عروج پر ہے۔ ڈنڈوں اور بلوں کی نمائش ہو رہی ہے بلکہ اب تو ٹماٹر اور انڈہ فورس بھی سامنے آرہی ہیں اسلئے ہمیں ماضی کی بجائے اپنے حال پر توجہ دینا چاہئے۔
غیر قانونی دولت بنانے والوں کا کڑا احتساب وقت کا تقاضہ ہے: یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم کی طرف سے ایسا معصومانہ مطالبہ سن کر نہ چاہتے ہوئے بھی ہنسی آہی جاتی ہے۔ اب معلوم نہیں یہ طربیہ ہوتی ہے یا المیہ۔ کیوں کہ وہ شخص جس پر اپنے دور اقتدار میں سب سے زیادہ کرپشن کے الزامات لگے۔ اپنی ذات سے ہٹ کر کرپشن سے بھی بڑھ کر جنہوں نے حکومت کو ملنے والے تحفے بھی اپنے گھر والوں میں مال مفت سمجھ کر بانٹے۔ وہ کس طرح اب غیر قانونی طریقے سے دولت بنانے والوں کے احتساب کی وہ بھی کڑے احتساب کی بات کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر کیا ہی اچھا ہو کہ وہ سب سے پہلے اپنے کو احتساب کیلئے پیش کرتے۔ یا عدالتیں خود پہلے ان کو ہی ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں۔ مصیبت تو یہی ہے کہ پیپلز پارٹی کا سابق دور مالی کرپشن اور ناجائز اثاثے بنانے کے ایسے ایسے کارناموں سے پر ہے کہ اگر کوئی لکھنے بیٹھے تو کتاب مکمل ہو سکتی ہے۔ اسکے باوجود اگر یوسف رضا گیلانی نے سب کے کڑے احتساب کی بات کی ہے تو اس پر حکومت اور عدلیہ کو کان دھرنا چاہیے اور تمام مالی بدعنوانوں اور غیر قانونی اثاثے بنانے والوں کو نشان عبرت بنانا چاہیے۔ مگر ایسا کرے گا کون یہاں تو سب یکساں تاریخ و جغرافیہ کے حامل ہیں۔ اسلئے فی الحال تو ہم …؎
تر دامنی پہ میر ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں توفرشتے وضو کریں
کہنے پر ہی گزارہ کرتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
براہمداغ بگٹی نے بھارت کو سیاسی پناہ کی درخواست دیدی
اگر غلامی کا نیا نام سیاسی پناہ رکھ دیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔ یورپ میں بھی سیاسی پناہ گزینوں کو کچھ حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ وہ بہت ساری رعایتوں سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ ان سے انکے مذہب زبان رنگ و نسل کا نہیں پوچھا جاتا۔ مگر یہ تو بھارت ہے ہندوتوا کے پجاریوں کا بھارت ورش جہاں وہ کسی ملیچھ کا وجود برداشت نہیں کر پا رہے۔ یہ تو کروڑوں ہندوستانی مسلمان ہی اپنی جنم بھومی ہونے کی وجہ سے وہاں ٹکے ہوئے ہیں۔ وہ بھی اپنے زور بازو پر وہاں نہ انہیں وہ مراعاتیں حاصل ہیں نہ وہ حقوق جو دیگر اقلیتوں کو حاصل ہیں۔ کیونکہ یہ ہندی مسلمان ہیں۔ ہندو دلت اور اچھوت بے شمار فوائد و مراعات پاتے ہیں مسلمانوں کو بھارت میں صرف ذلت اور موت ہی ارزاں ملتی ہے۔ اب براہمداغ بگٹی بھی مسلمان ہیں۔ مگر وہ ہندی نہیں بلوچ مسلمان ہیں۔ انہوں نے بھی بھارت ورش کو بظاہر نظر آنی والی جنت کو اپنے خوابوں کی جنت سمجھ لیا ہو گا کیونکہ بھارت خواب بڑے خوبصورت دکھاتا ہے۔ جس میں براہمداغ بگٹی جیسا سیاستدان بھی پھنس گیا مگر وہ یاد رکھیں کہ سرحدی گاندھی سے لے کر بلوچستانی اور کشمیری گاندھی تک بہت سے لوگوں نے یہ بھارتی خواب آنکھوں میں رچائے مگر تعبیر نہ پہلے کبھی کسی کے حصہ میں آئی نہ اب آئیگی۔