حجاج کرام گھروں کو واپس جا رہے ہیں۔ عمرہ کا ویزہ بند ہے۔ ماہ ربیع الاول میں کھلے گا۔ ہم جدہ کے معروف سرکاری ہسپتال کی دعوت پر وزٹ ویزہ پر کل جدہ پہنچے۔ جدہ کے بین الاقوامی ہوائی اڈہ پر کوئی مسافر احرام میں دکھائی نہ دیا۔ نیویارک سے جدہ پرواز میں جدہ کے مقامی اور غیر ملکی ملازمین سفر کر رہے تھے، جو حج کی چھٹیوں میں امریکہ سیاحت کے لیئے گئے ہوئے تھے اور اب واپس آرہے تھے۔ عرصہ بعدسعودی ایئر لائن پر سفر کیا تو انٹر نیشنل پرواز کا معیار پہلے سے بہتر دکھائی دیا جبکہ مڈل ایسٹ اور پاکستان کی سعودی پروازیں غیر معیاری ہیں۔ نیویارک سے جدہ تیرہ گھنٹے کی پرواز جب حرم میقات کے اوپر سے گزری تو ہمیشہ کی طرح ہمارے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ ہمارا قیام چونکہ جدہ میں ہے لہذا ڈاکٹر چیمہ بھی احرام کے بغیرتھے۔ اور دل تھا کہ سیدھا مکہ معظمہ پہنچنے کو بے تاب تھا۔ مقامی سرکاری ہسپتال کی انتظامیہ نے ایئر پورٹ کے اندر آکر استقبال کیا۔ ہسپتال کی سواری پر ہسپتال کی رہائش گاہ تک پہنچایا۔ ہسپتال کے اندر کا علاقہ از خود ایک بڑاشہر آباد ہے۔ تھکن اتارنے کے بعد کھلی فضاء میں گہرے گہرے سانس لیئے کہ اس پاک سر زمین کا چپہ چپہ عشق نبی ؐ کی خوشبو سے معطر ہے۔ اللہ سبحان تعالیٰ کے مہمان ہونا دنیا کا سب سے عظیم اعزاز ہے۔ ہسپتال کے کمپائونڈ کی مارکیٹ سے کچھ شاپنگ کی۔ گھر لوٹے تو کچھ دیر بعد جدہ میں برسوں سے مقیم ہمارے عزیز اور صحافی خالد نواز چیمہ ملاقات کے لیئے آگئے۔ مومنہ چیمہ فائونڈیشن کی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔ جدہ کے اس ہسپتال سے مکہ معظمہ نصف گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے۔ ڈاکٹر محمد اختر چیمہ لاہور میں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کی لیب میں بھی تین سال خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان دنوں کینسر ہسپتال نوزائیدہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے لیب کی بنیاد مضبوط کی اور پھر ہم لوگ امریکہ لو ٹ آئے۔پوری زمین اللہ تعالیٰ کی مسجد ہے ،جہاں سر جھکا دیا ہے اسی کوسجدہ گاہ بنا دیا۔ رزق انسان کو نگر نگر گھماتا ہے اور اس طرح اللہ کی مخلوق کی خدمت کے مواقع فراہم ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے شوہر کینسر کی تشخیص کرنے میں مصروف رہے اور ہم سوشل ورک میں مشغول رہے۔ اللہ کا احسان ہے کہ یہ سلسلہ تھما نہیں بلکہ بیٹی کے انتقال کے بعد خدمات نے باقائدہ فائونڈیشن کی صورت اختیار کر لی۔اس سال کی عیدالاضحیٰ بھی گزر گئی۔ حج کے خیریت و سلامتی سے ہونے پر سعودی حج انتظامیہ مبارکباد کی مستحق ہے۔ پاکستان کی حکومت کا یہ حج بھی کامیاب رہا۔ انتظامیہ کے ایک شخص سے ہم نے پوچھاکہ اس سال کا حج الحمد للہ بغیر کسی حادثہ کے پر امن رہا ؟ تو سعودی نے فوری جواب دیا ’’ ایرانی اس سال حج پر نہیں آئے۔ ہم نے حیرانی سے دیکھا تو بولا ’ ہر مرتبہ انتظام میں کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ہو تی رہی لیکن اس سال حج منسٹری نے سخت اصول مرتب کیے تھے ، تمام اسلامی ممالک نے اس عہدنامہ پر دستخط کر دیئے سوائے ایران کے۔ اس نے مزید کہا کہ اس سال مقامی باشندوں کی بھی سخت چیکنگ کی گئی۔ مشرق وسطیٰ سے غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے والوںکی بھی کڑی نگرانی کی گئی۔ امت مسلمہ حج قوانین پر عمل کریں تو حج میں حادثات رونما نہ ہوں۔ ہم نے کہا ’اور وہ جو مسجد حرم میں تیز آندھی کے زور سے گرنے والے لفٹڑ سے جو جانیں گئیں،اللہ کے گھر میں بے گناہوں کا لہو بہا، اس کا ذمہدار کون ہے؟ سعودی نے کہا کہ اس کے ذمہداران بن لادن کمپنی کے خلاف کاروائی جاری ہے ، ان کے ٹھیکے بند ہیں‘۔ سعودی باشندے نے پاکستانیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان کے اچھے انتظامات کی وجہ سے پاکستانی حجاج کرام بھی خوش دکھائی دیتے ہیں۔ ہم نے کہا لیکن جدہ ہوائی اڈوں پر تعینات سعودی انتظامیہ کی کاہلی اور بد نظمی کی وجہ سے حجاج کرام بہت خوار ہوتے ہیں ؟ سعودی نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ بلا شبہ جدہ ایئر پورٹ کی انتطامیہ کاہلی کا شکار ہے۔ کائونٹروں پر فوجی بیٹھے ہوئے ہیں ، انگریزی زبان اور دیگر تربیت کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب کا سفری نظام سست روی اور بد نظمی کا شکار ہے۔ سعودی کے منہ سے یہ اعتراف سن کر اچھا لگا۔لیکن حج انتظامیہ اور ہوائی اڈوں پر زائرین کرام کے ساتھ بد سلوسے متعلق کسی مثبت تبدیلی کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ہم جدہ ایئر پورٹ پہنچے تو امیگریشن کائونٹروں پر عملہ موجود تھا لیکن زائرین کی آمد کا سلسلہ بند ہونے کی وجہ سے نہ احرام والے تھے اور نہ کہرام والے تھے۔ایسا پرسکون استقبال دیکھ کر پلکیں بھیگ گئیں۔ تیرا کرم ہے آقا ؐ کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے!