یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں آج تک جتنے نظام حکومت متعارف ہوئے ہیں ان میں جمہوریت بہترین نظام حکومت ہے ۔سیاسیات کے دانشوروں نے جمہوریت کی جو تعریف کی ہے اس میں عوام ہمیشہ مرکزو محور ہے ہیں۔آیئن کے تحت انتظامیہ ، مقننہ اور عدلیہ اپنے اپنے دائرہ اختیار اور دائرہ کار میں امور سلطنت انجام دینے کے لیئے آزاد ہوتی ہیں ۔چونکہ جمہوریت ایسا نظام حکومت ہوتا ہے جو عوام کے ذریعے ، عوام کی خاطر اور عوام کے لیئے ہوتی ہے اس لیئے ملک کے تمام ادارے عوام کی فلاح و بہبود کو اولیت دیتے ہیں اور ایسی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جس میں عوام کے جان و مال کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کو زیور علم سے آراستہ کرنا، ان کی صحت و تندرستی کا خیال رکھنا ، روزگار کے مواقع بہم پہنچانا ، مساوات اور برابری کی بنیادوں پر میرٹ کو یقینی بنانا جمہوری حکومت کے فرائض میں شامل ہوتا ہے ۔ جمہوری معاشرے میں بلا تفریق مذہب ،رنگ و نسل اور زبان برابری کے حقوق حاصل ہوتے ہیں ۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظمؒ نے 26مارچ 1948ءکو چٹا گانگ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا۔” انسانی ترقی کے عظیم تصورات ،سماجی انصاف ،مساوات اور اخوت کے تصورات“۔جو تخلیق پاکستان کی بنیادی وجہ تھے۔یہی ( تصورات)پاکستان میں ایک مثالی انتظام و انصرام کی تشکیل کے بے پناہ امکانات کے ضامن ہیں۔میں پر زور انداز میں یہ دہرانا چاہتا ہوں کہ تخلیق پاکستان ان اسباب کی بنیاد پر ہی ممکن ہو سکی کہ ہمیں متحدہ ہندوستان کے ذات پات کی بنیادوں پر قائم معاشرے میں انسان کی روح کی ہلاکت کا اندیشہ تھا۔آج وہ روح آزاد ہے۔وہ بلندیوںکی جانب پرواز کر سکتی ہے۔اپنے بھر پور اظہار کے ذریعے وہ پورے ملک و قوم میں زندگی کی لہر پیداکر سکتی ہے۔بانی پاکستان کے ان نظریات کی روشنی میں آج ستر سال گزرنے کے بعد جو تنزلی اور زوال ،ہمارے معاشرے کے حصہ میں آیا ہے وہ ہمارے حکمرانوں کی مفاد پرستی ،کو تاہ نظری ، مطلب براری کا نتیجہ ہے ۔فوجی آمروں نے بھی اس ملک کو تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں دیا اور نام نہاد جمہوریت پسند حکمرانوں نے بھی اپنی تجوریاں بھرنے اور مفاد پرست ٹولے کی سر پرستی کرنے کے علاوہ عوام کے لیئے کچھ نہیں کیا۔
دوقومی نظریہ جس نے پاکستان کی بنیاد رکھی آج کے مادہ پرست نام نہاد لیڈروں نے اسے بھی باطل ثابت کرنےکی کوشش کی ہے ۔وہ روح جسے پاکستان کو بلندیوں کی طرف لے جانا چاہیئے تھا وہ روح آج زرپرستی ،کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں میں مقید ہو چکی ہے۔تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے والے مسلم لیگ کے لیڈر کو ملک کی عدلیہ نے خائن ،جھوٹا اور بد دیانت قرار دے کر نا اہل بنا دیا ہے ۔ جس کی پکار زبان زد عام ہے کہ ” مجھے کیوں نکالا“ کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ وزیر اعظم جس کو اللہ نے تیسری مرتبہ وزارت عظمی کے منصب پر فائز کیا۔جو واحد مسلم ایٹمی ریاست کا چیف ایگزٹیو ہے مالی بے قاعدگیوں کا مرتکب پایاگیاہے۔اور نہایت بے عزتی سے منصب کی توہین کر کے نا اہل قرار پایا۔
قائد اعظم ؒ نے 6مئی1945ءکو اصفہانی کے نام خط میں لکھا۔”بد عنوانی کی لعنت ہندوستان میں خصوصا ہندوستانی مسلمانوں کے نام نہاد تعلیم یافتہ طبقوں میں عام ہے ۔بد نصیبی سے یہی طبقہ سب سے زیادہ خود غرض اور اخلاقی و ذہنی پستی کا شکار ہے ۔یوں تو یہ مرض عام ہے ،لیکن مسلمانوں کے ایک مخصوص طبقے میں تو وبا کی طرح پھیلا ہوا ہے “۔یہی وبا آج پاکستان میں ہرشعبہ زندگی میں عام ہے ۔ذاتی مفادات کی خاطر حکمرانو ں نے بیورکریسی اور سرکاری ملازمین سے صرف نظر کیاہے۔حد یہ ہے کہ سیلاب زدگاں اور متاثرین زلزلہ کے لیئے جو بیرونی امداد آتی رہی حکمران اسے دیار غیر میں سرے محل اور لندن فلیٹس خریدنے پر خرچ کرتے رہے قیادت کی پستی کایہ عالم ہے کہ ترکی کی خاتون اول نے متاثرین سیلاب کے لیئے گلے کا ہار اتار کر مدد کے لیئے پیش کیا جو اس وقت کا وزیر اعظم لے اڑا۔کیاتوقع کی جائے ان حکمرانوں سے جو کرپشن کی دلدل میں سر تا پا غرق ہیں۔”سب سے پہلے پاکستان “ کا نعرہ لگانے والاڈکٹیٹر آج ارض پاک میں قدم نہیں رکھ سکتا۔اس وقت پاکستان کی جمہوریت کی عفونت زدہ لاش سے کرپشن کی بد بو ہر طرف پھیلی ہوئی ہے ۔وزیر خزانہ پہ الزام ہے کہ اپنی آمدنی سے زیادہ وسائل پر قبضہ جمایاہواہے ۔ملکی وسائل دوبئی کے محلات پر خرچ ہو رہے ہیں۔بیرونی ممالک کے بینکوںمیں سرمایہ منتقل کیا جا رہاہے پاکستان کی ریاست ایک چراگاہ بن چکی ہے ۔بڑوں کے بیٹے اور مفادات غیر ممالک سے وابستہ ہیں اور پاکستان کی جمہوریت میں عوام بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔
ہماری ہر ایک بات میں سفلہ پن ہے
کمینوں سے بد تر ہمارا چلن ہے
لگا نام آبا کو ہم سے گہن ہے
ہمارا قدم ننگ اہل وطن ہے
پاکستانی جمہوریت؟
Sep 20, 2017