پیر کی شام میرے ٹی وی شو کے دوران ایک صاحب ہماری پروڈکشن ٹیم سے بارہا ٹیلی فون کے ذریعے اصرار کرتے رہے کہ انہیں NA-120میں ہوئے ضمنی انتخاب کے بارے میں اپنی رائے دینا ہے۔ میری Co-Anchorکی شدید خواہش تھی کہ میں اس انتخاب سے متعلق دیگر جزئیات کونظر انداز کرتے ہوئے صرف اس سوال کے جوابات ڈھونڈنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھوں کہ ”تحریک لبیک“ اور ”ملی مسلم لیگ“ اس معرکے میں کیوں کود پڑے۔ ان دوجماعتوں کے اس معرکے میں درآنے سے اصل نقصان نون لیگ کو ہوا یا تحریک انصاف کو۔
عالمی اخبارات میں ”تحریک لبیک“ سے زیادہ اگرچہ ”ملی مسلم لیگ“ کے ظہور کے بارے میں تواتر سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ ان کے قیامِ نیویارک کے دوران وزیر اعظم عباسی سے ملنے والے چند امریکی عہدے دار اور سفارت کار بھی ایسے سوالات اٹھائیں گے۔ اس پہلو کی جانب توجہ دینا لہذا ضروری تھا۔
میری پروڈکشن ٹیم نے مگر بریک میں مجھے بتایا کہ انہیں فون کرنے والے صاحب خود کو ایک بڑی عمر والے بزرگ بتارہے ہیں۔ انہوں نے 1947ءکے فسادات بھی بھگتے ہیں۔ ان کی رائے کو اہمیت دی جانا چاہیے۔ جب مجھے یہ بات بتائی گئی تو میں نے پروڈکشن ٹیم کو ہدایت کی کہ اگر وہ بزرگ دوبارہ فون کریں تو ان کی کال Liveشو میں تھرو کردی جائے۔بریک سے واپسی کے فوری بعد کال آبھی گئی۔
اپنا نام ”اکبر“ بتانے کے بعد ان صاحب نے انتہائی دُکھ کے ساتھ اس رائے کا اظہار کیا کہ NA-120کے ضمنی انتخاب کے دوران لاہور کے ووٹروں نے مبینہ طورپر ویسا ہی ”سفاک“ رویہ دکھایا جو انہوں نے 1947ءکے بعد اس شہر میں ”مشرقی پنجاب سے آئے“ مہاجرین کے ساتھ روارکھا تھا۔ اس ”سفاک“ رویے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے انہوں نے جو الفاظ استعمال کئے،انہیں دہرانا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ نہ ہی ان صریحاََ جھوٹے الزامات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے اپنی سوچ کو درست ثابت کرنے کے لئے گنوائے۔
”اکبر صاحب“ کو باقی صدیقی والے ”داغِ دل“ صرف اس لئے یاد آگئے کہ لاہور والوں نے ایک ”ڈاکو جسے سپریم کورٹ نے وزارتِ عظمیٰ کے لئے نااہل قرار دیا“ کی بیوی کو قومی اسمبلی کے لئے منتخب کرلیا ہے۔ میں ڈھیٹ بنا ان کی دُکھ بھری داستان سنتا رہا۔ صرف یہ معلوم کرنا چاہا کہ وہ صاحب لاہور کے رہائشی ہیں یا نہیں۔ ربّ کریم کے شکر گزار ہوئے لہجے کے ساتھ انہوں نے اطلاع یہ دی کہ ان کا تعلق اوکاڑہ سے ہے مگر کئی برسوں سے وہ اسلام آباد کے رہائشی ہیں۔
NA-120کے تناظر میں ”اکبر صاحب“ نے لاہور کی جو ”تاریخ“ بیان کی اور وہاں کے باسیوں کو جس ”سفاک“ رویے کا عادی بتایا، اس نے مجھے حواس باختہ بناڈالا۔ میں ہر حوالے سے ایک جدی پشتی لاہوری ہوں۔ میری نفسیاتی ساخت میں لاہور کی گلیوں،میرے سکول اور کالج نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ انتہائی غیر جانبداری سے بہت ہی منطقی انداز میں جب کبھی میں نے اپنے ”لاہوری ورثے“ کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی تو اکثر ندامت کی بجائے رومانس بھرا تفاخر ہی محسوس کیا۔
گزشتہ چند برسوں سے البتہ میں جب بھی لاہور جاتا ہوں تو مجھے اس شہر میں رہنے سے وحشت ہوتی ہے۔ اپنا قیام مختصر کرکے واپسی کے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہوں۔ ان دنوں کے لاہور میں مجھے وہ سادگی،خلوص اور تاریخی وثقافتی ورثے کی Eleganceنظر نہیں آتی جومیرے بچپن میں ہر سمت چھائی ہوتی تھی۔ یادِ ماضی ایک ترکیب ہے۔یہ ترکیب مگر Nostalgiaکی گہرائی وگیرائی کو بیان نہیں کرپاتی۔ میراخیال ہے کہ اپنے بچپن کے لاہور سے جڑی میری یادیں یا Nostalgiaمجھے ان دنوں کے لاہور میں رہنے نہیں دیتیں۔
جدید ترکی ادب کا دلوں کو مسحورکردینے والا ادیب اورحان پامک استنبول کا باسی ہے۔ بہت ہی شہرت یافتہ عالمی شخصیت یا Global Personalityہوجانے کے باوجود بھی وہ استنبول میں ٹکے رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ اس شہر سے عاشقوں کی طرح محبت کرتا ہے۔ اس کے بازار،گلیاں اور عمارتیں اس کی نظر میں جیتے جاگتے کردار ہیں جن کی مخصوص نفسیاتی ساخت ہے۔ یہ بازار،گلیاں اور عمارتیں اورحان پامک سے گفتگو کرتی ہیں۔
پامک کا یہ خیال بھی ہے کہ استنبول،لاہور یا نیویارک جیسے شہر درحقیقت کسی کیفیت کا اظہار کرتے ہیں۔ استنبول اس کی نظر میں ”حزن“ والی کیفیت کا بھرپور اظہار ہے۔اس کے ناولوں اور مضامین کو انگریزی میں ترجمہ کرنے والے ”حزن“ کا متبادل نہیں ڈھونڈپائے ہیں۔اُردو میں ہم حزن کو ملال کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔صرف ”حزن“ کا استعمال میں نے اُردو ادب میں ہوتے نہیں دیکھا۔انگریزی میں شاید اس کیفیت کو Melancholyکہا جاسکتا ہے۔ اُردو میں اسے مالیخولیا کہا جاتا ہے اور میرے نصاب کی کتاب میں لکھا ہوا تھا کہ میرتقی میر اس مرض میں مبتلا تھے۔
یہ لفظ لاطینی زبان میں یونان سے آیا تھا۔ فرض کرلیا گیا تھا کہ ہمارے جگر سے سیاہ رنگ والا کوئی سیال مواد جب خون میں شامل ہونا شروع ہوجائے تو ہمارے دل ودماغ پر مایوسی چھانا شروع ہوجاتی ہے۔ یونانی زبان میں سیاہ رنگ کو Melasکہتے ہیں اور Choleسیال مواد۔ ”حزن“ میری دانست میں لیکن مالیخولیا نہیں۔ مالیخولیا اپنی جگہ ایک الگ کیفیت ہے۔
مجھے خدشہ ہے کہ اندھی نفرت وعقید ت میں تقسیم ہوئی میری قوم ان دنوں مالیخولیا کا شکار ہوچکی ہے۔ ان کے مالیخولیا کو بڑھانے میں ہم ٹی وی اینکرز اپنی سیاپا فروشی سے اہم ترین کردار ادا کررہے ہیں۔ مجھے فون کرنے والے ”اکبر صاحب“ بھی اسی مرض کا شکار محسوس ہوئے۔
لاہوریوں کی مبینہ”سفاکی اور بے حسی“ کو 1947ءکے تناظر میں رکھ کر ”مشرقی پنجاب سے آئے مہاجرین کے ساتھ ہوئے سلوک“ کی شکایت کرتے ہوئے ”اکبر صاحب“ نواز شریف کی اندھی نفرت میں یکسر یہ حقیقت بھول گئے کہ شریف خاندان بھی مشرقی پنجاب کے امرتسر کے نواحی جاتی امراءسے لاہور آکر ککھ سے لکھ ہوا تھا۔ تحریک انصاف کی امیدوار یاسمین راشد صاحبہ نے میری دانست میں تن تنہا NA-120کی تقریباََ ہر گلی میں جاکر 41ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ یہ ووٹ نواز شریف کی سیاسی قوت کو ذہن میں رکھتے ہوئے متاثر کن حد تک حیران کردینے والے ہیں۔
یہ بات درست کہ ڈاکٹر صاحبہ کا ذاتی تعلق لاہور سے نہیں چکوال سے ہے۔انہوں نے مگر اس شہر میں تعلیم پائی اور بحیثیت ڈاکٹر اس شہر کی زچگی کی تکالیف اور پیچیدگیوں میں مبتلاخواتین کی ان تھک خدمت کی۔ انہیں ملے ووٹ کئی حوالوں سے ان کی محنت کا اجر ہیں۔ انہیں لاہوریوں کی جانب سے ملا احساس تشکر ومحبت ہے۔
”اکبر صاحب“ کو مالیخولیا نے شاید ا س حقیقت سے بے خبررکھا ہو کہ یاسمین راشد صاحبہ کے سسر بھی لاہورہی سے منتخب ہوا کرتے تھے۔ ملک غلام نبی ان کا نام تھا۔ وہ بھی لاہور میں مشرقی پنجاب کے امرتسر سے آئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے صوبائی اسمبلی میں پہنچنے کے بعد وزیر تعلیم بنے تو آخری دم تک فروغ تعلیم کے جنون میں مبتلا رہے۔
اندھی نفرت اور عقید ت میں تقسیم ہوئی میری قوم کے چند لوگ مگر صرف نواز شریف کی نفرت میں پورے شہر لاہور کو ”ویلن“ کی علامت بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ یہ حقیقت فراموش کرتے ہوئے کہ ان کا ہیرو-عمران خان- بھی لاہورہی کے زمان پارک میں کرکٹ کھیلتا ہوا ان کے دلوں تک پہنچا ہے۔