ہر معاشرہ کے اندر کہیں نہ کہیں کچھ ایسے کردار ہوتے ہیں جنکے باہمی تعلق اوار روابط پر مبنی قصے اور کہانیوں کی وجہ سے بعض اوقات انکے متعلق ایسے محاورے، کہاوتیں اور ضرب المثل پڑھنے اور سننے کیلیئے مشہور ہو جاتی ہیں کہ انکو پڑھنے اور سننے والا جب عملی زندگی میں ان کرداروں کو دیکھتا ہے تو ان محاوروں کہاوتوں اور ضرب المثلوں کے تخلیق کاروں کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس سے پہلے کہ کچھ دوست میری ان بیان کردہ ضرب المثلوں کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے رشتوں کی ذاتی تضحیک کی بنیاد دیکر کسی نئی بحث کا آغاز کریں میری ان سے گزارش ہو گی کہ بعض اوقات مزاح میں لپٹی کچھ باتیں اپنے اندر بڑے تلخ حقائق چھپائے ہوتی ہیں جنکو اگر ہم سمجھ جائیں تو معاشرتی سْدھار کی کئی منزلیں قریب آ جاتی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ ہم اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں پھر بھی آگر کسی تضحیک کا پہلو اجاگر ہو تو پیشگی معذرت تو قارئین اج سوشل میڈیا پر ایسے ہی ایک پنجابی محاورہ آنکھوں کے سامنے سے گزرا جو کچھ اسطرح ہے" ویکھو! ماسی بنی سّس تے اْنہوں وی ڈین والا چَس"۔ میرے نزدیک اسطرح کی چپڑی چوپڑی اور مصالحہ دار باتوں کو شیئر کرنے کا سب سے پہلا حق گہرے دوست کا ہی بنتا ہے اس لئے جیسے ہی یہ محاورہ پڑھا تو دنیا میں اپنے سب سے گہرے اور قریبی دوست اپنی بیگم کو اس طرف متوجہ کیا کیونکہ ویسے بھی ہر عورت کو جلد یا بدیر ساس کے اعلی عہدے پر براجمان ہونا ہی ہوتا ہے اس لئے یہی انتخاب سب سے اولیت پایا۔ علم و ادب کی دنیا میں اپنی حثیت ایک طالبعلم سے زیادہ کچھ نہیں لیکن بیگم جو کھانے پکانے اور پروسنے میں اگر اپنا ثانی نہیں رکھتی تو علم و ادب کے میدان میں بھی اسکی معلومات کسی ایک سبجیکٹ تک محدود نہیں فوراً بولی کہ ساس بہو کے جھگڑے کی بابت بات صرف ماں ماسی تک ہی نہیں بلکہ دو قدم اس سے بھی آگے ہے کہ "تِی بنے نْوں تے اورا وی فِٹے مْنہ " جی قارئین ساس اور بہو پاک و ہند کے ہمارے معاشرے میں یہ دو کردار ایسے ہیں جو اپنی باہمی چپقلش کی وجہ سے بیشتر اوقات ہر محفل ہر زبان کا موضوع سْخن بنے ہوتے ہیں۔ مزیدار بات قارئین یہ مت سمجھئیے کہ بہو اور ساس کے رشتے کی یہ رقابت یہ تناؤ صرف ہمارے معاشرے تک ہی محدود ہے اگر ہمارے معاشرے میں ساس اور بہو کی چپقلش مشہور ہے تو انگریز معاشرے میں بھی اس سے ملتے جْلتے ساس اور داماد دو ایسے کردار ہیں جنکے دِلی عناد کے متعلق سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں کہاوتیں پڑھنے اور سننے کیلئے ملتی ہیں جسکی انتہا کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پودوں کی ایک نسل cactus کہلاتی ہے اس نسل کی بیشتر اقسام کے پودوں کی بیرونی جلد بیشمار کانٹوں سے لبریز ہوتی ہے انہی اقسام میں ایک ایسا پودا بھی ہے جسکی ساخت انسانی زبان جیسی ہوتی ہے اور یہ کانٹوں سے آٹی انتہائی نوکیلی اور تیز ہوتی ہے جسے گوروں نے ساس کی تْرش زبانی کی مماثلت دیکر mother in law tounge plant کا نام دیکر شخصی بْغض اور دلی عناد کے اظہار کی آخیر کر دی ہے۔ یہ تو تھے زبانی اور کتابی تذکرے اب مزاح، طنزاور بْغض کی سطحی باتوں سے آگے نکل کر اگر زمینی حقائق کی روشنی میں اپ ان باتوں کے سنجیدہ پہلو پر غور کریں تو اس ٹکڑاؤ میں آپکو جو چیز سب سے بڑھکر دیکھنے کو ملے گی وہ ہے personality clash۔ اس سلسلے میں ماہرِ نفسیات کا تجزیہ ہے personality clash کا اصل موجد دراصل یہ نہیں کہ اپنے اندر پائی جانے والی صفات ایک انسان اپنے علاوہ کسی دوسرے میں دیکھنا پسند نہیں کرتا بلکہ اسکا اصل محرک انسان کے اندر چھپی اختیارات اور اقتدار کی وہ خواہش ہوتی ہے جسے جب وہ اپنے مدمقابل انسان میں محسوس کرتا ہے تو اس مقام سے اس تصادم کا آغاز ہوتا ہے جسے دوسرے لفظوں میں رقابت کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ انسانی رشتوں میں ہر رشتے کی اپنی قربت اور اس قربت پر اپنا فلسفہ ہے۔ کالم کی طوالت کی بندش اپنی قید میں جکڑے ہوئے ہے اس لئے اس فلسفے پر پھر کبھی بات ہو گی سرِ دست اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے معاشرے میں جہاں بیٹا ماں کی اولین ترجیح ہوتی ہے کیونکہ مستقبل میں اسکے گھریلو اقتدار کی تمام کڑیاں اس سے ملتی اور امیدیں اسی سے جْڑی ہوتی ہیں جبکہ بیٹی اپنے باپ کی لاڈو ہوتی ہے کہیں اْسے گْڈو کہیں اْسے ببلی اور کہیں اسے رانی کے نام سے پکارا جاتا ہے کیونکہ باپ گھر میں صاحب اقتدار ہوتا ہے اس لئے لاڈو باپ کی قربت کی وجہ سے زیادہ تر گھر کے اکثر فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور اسطرح اسکے ذہن میں حکمرانی کا احساس جنم لیتا ہے جو دوسرے گھر میں جانے تک ایک تناور درخت بن چکا ہوتا ہے۔ اب گْڈو ، ببلی یا رانی جب دوسرے گھر میں جاتی ہے تو وہاں پر ایک طرف اسکے اپنی جیسی ایک گْڈو تو موجود ہوتی ہی ہے لیکن دوسری طرف وہاں پر ایک اور بوڑھی گْڈو بھی موجود ہوتی ہے جو کبھی اپنے باپ کے گھر کی گْڈو تھی لہذا یہاں سے اس جنگ کا آغاز ہوتا ہے جسکے متعلق اوپر بیان کردہ ضرب المثلیں مشہور ہیں۔ اب جب گْڈو نئے گھر میں وہ اختیار حاصل کر نہیں پاتی جسکا اسے بچپن سے چسکا پڑا ہوتا ہے تو وہ واپس پویلین کی طرف رجوع کرتی ہے اور اب پولین کی لاڈو گْڈو سے پْھوپْھو کے کردار میں نمودار ہوتی ہے جبھی تو ساس اور بہو کے جھگڑوں اور اقتدار کی رسہ کشی کے بعد گھریلو اقتدار کی ریشہ دوانیوں اور مداخلت کے چرچے جس رشتے سے جْڑے ہیں وہ ہے پْھوپْھو کا وجود۔ قارئین ہمارے معاشرے میں پھیلا یہ وائرس گھریلو سطح پر موجود تو تھا ہی ہماری بدقسمتی اور بدنصیبی کی انتہا دیکھیں کہ ہماری ملکی سیاست کو بھی پچھلے دس سال سے یہ پْھوپْھو اور گْڈو کے کرداروں نے کس طرح اپنی گرفت میں جکڑ لیا ہے پہلے پانچ سال بھٹو بھٹو تو نہ ہو سکی لیکن ہر طرف پْھوپْھو نظر آئی اور اب کہ چار سال سے جبکہ پانچواں شروع ہے جہاں دیکھیں اپنے باپ کی لاڈو گْڈو ہی صاحب اختیار نظر آتی ہے۔ دونوں نے اپنی اپنی جگہ جو گْل کھلائے وہ کوئی راز نہیں بہت جلد وہ قصے لوک داستانوں کا درجہ پائیں گے۔ چلیں اگر ہمارے ملکی نظام نے بھی اسی گھریلو سیاست کی طرز پر ہی چلنا ہے اور ہم نے اسی کی تقلید کرنی ہے تو پھر ہمارے پیارے دوست جناب خالد رسول کو جنہوں نے پچھلے دنوں فیس بْک پر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کا ایک شعر پوسٹ کیا تھا جو کچھ یوں ہے "کفن باندھے ہوئے یہ شہر سارا جا رہا ہے کیوں سوئے مقتل ہی ہر رستہ ہمارا جا رہا ہے کیوں" اْنہیں اور ان جیسے فکری اساس رکھنے والے دوسرے دوستوں کو بھی اسکا جواب مل جائے گا کہ یہی ہماری تقدیر میں لکھا ہے۔
گڈو تے پھوپھو
Sep 20, 2017