اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + نیٹ نیوز) چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہا کہ خبروں میں آیا ہے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نائب امریکی صدر سے ملاقات کریں گے۔ میرا وزیراعظم کو مشورہ ہے نائب امریکی صدر سے ملاقات نہ کریں۔ سینٹ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ وزیراعظم پاکستان سے نہیں مل رہے تو وہ نائب امریکی صدر سے نہ ملیں۔ یہ پاکستان کی تضحیک کے مترادف ہے۔ ٹرمپ وزیراعظم پاکستان سے نہ ملے۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے ایوان سے خطاب میں کہا کہ خطرات اتنے فوری نوعیت کے ہیں کہ صرف 4 آدمیوں کو اس کے بارے میں علم ہے۔ ان میں سابق آرمی چیف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی شامل ہیں۔ وہ چار کے چار افراد اب حکومت میں نہیں۔ چودھری نثار نے کہا کہ شاید جنرل باجوہ کو علم ہو لیکن نئے وزیراعظم کو علم نہیں۔ وزیراعظم کو علم نہیں تو موجودہ وزیر داخلہ کو کیا علم ہوگا۔ اس معاملے پر سینٹ کے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس بلائیں۔ سابق وزیر داخلہ کو اس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جائے۔ چودھری نثار نے کہا تھا کہ ریاست کو تباہ کرنے کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ ایوان بالا میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ گزشتہ دو تین دہائیوں سے ریاست نے جہاد کو پرائیویٹائز کیا اور جنگوں میں مذہب کو استعمال کیا اور انہی سب چیزوں کے نتائج آج سامنے آرہے ہیں۔ یہ بات پیر کو سینٹ کے اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت متبادل بیانیہ پیش کرنے میں ناکامی پر بحث کے دوران پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہی۔ انہوں نے کہا کہ انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں ریاست نے فوجی سازو سامان پر توجہ تو دی لیکن عسکریت پسندی کے خاتمے کے لئے بیانیہ تشکیل نہیں دیا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے گزشتہ پیر کو قرارداد پیش کی تھی جس میں درخواست کی گئی تھی کہ ایوان بالا میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے متبادل بیانیہ بنانے کے عمل پر بحث کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں پیش کردہ تصور کے مطابق بیانیے پر کام نہیں کیا گیا۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں عتیق نے قومی ایکشن پلان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فوج نے اپنی ذمہ داری پوری کی اب حکومت بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کے سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں مدد ملی ہے۔ بڑے تعلیمی اداروں کے بچے انتہا پسند تنظیموں میں شامل ہورہے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے تمام فریقین ملکر متفقہ قومی بیانیہ تشکیل دیں۔ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی اور ناکامی سب کی کامیابی اور ناکامی ہوگی۔ متبادل بیانیہ نیکٹا کی ذمہ داری ہے۔ نیشنل ایکشن کے خلاف بات کرنے والے اپنی ناکامی کا اعتراف کررہے ہیں کیونکہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرانا صوبائی حکومتوں کی بھی ذمہ داری تھی۔ سینٹ اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ بیانیہ ہمارے سکولوں اور درسگاہوں میں پروان چڑھتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر سب کا مو¿قف واضح ہے۔ قائداعظم کی ایک تقریر کو 1947 سے سینسر کیا جارہا ہے۔ جنگجوﺅں نے ہمارے مذہب کا استعمال کیا ہے۔ رضا ربانی نے کہا وزارت خارجہ بتائے کہ جنیوا میں بی ایل اے کی طرف سے پاکستان کے خلاف پوسٹرز اور بینرز لگانے کے معاملے پر کیا ایکشن لیا گیا ہے۔ اس حوالے سے دفتر خارجہ نے سوئس حکومت سے کیا بات کی ہے۔ جب پاکستان سے مختلف مطالبات کئے جاتے ہیں تو پھر ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ سوئٹزرلینڈ کیوں علیحدگی پسندوں اور دہشتگردوں کو سپانسر کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے۔ دفتر خارجہ نے اس حوالے سے کیا اقدامات کئے ہیں اور کیا یہ معاملہ سوئس حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے۔ وزیر برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت بلیغ الرحمن نے کہاہے کہ حکومت نے پانچ سالوں میں 59366 کے اندرون ملک قرضے لئے ہیں ۔جن میں سے 60فی صد قرضے واپس کیے گے ہیں ، کرپشن کی روک تھام کے حکومتی اقدام سے کافی کمی واقع ہوئی ہے۔وفاقی وزیر پارلیمانی امور آفتاب احمد نے سینٹ کو بتایاکہ بیرون ملک بھجوانے والے افسران کی تربیت اور دیگر ضابطے پورے کئے جاتے ہیں ¾ پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے بورڈ آف انویسٹمنٹ کی پالیسی تیاری کے مراحل میں ہے‘ سی پیک کے تحت سامان کی باہرداری پر راہداری ٹیکس لگانے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ وزیر نجکاری دانیال عزیز نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران سیکرٹری نجکاری احمد نواز سکھیرا نے مختلف ممالک کے نو دورے کئے ہیں۔وزیر مملکت برائے توانائی جام کمال نے سینٹ کوبتایا ہے کہ ایران پر پابندیوں کی وجہ سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے میں تاخیر ہوئی‘ ترکمانستان سے گیس کی درآمد ہماری ضرورت ہے‘ قطر سے مہنگی ایل این جی خریدنے کا تاثر درست نہیں۔سینٹ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کے خطاب پر اظہار تشکر کی تحریک کی منظوری دے دی۔ شکریہ کی تحریک وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے پیش کی۔