بیجنگ /نئی دہلی (آئی این پی ) بھارت نے چین کے ساتھ سرحد کے بعد پانی کا تنازعہ شروع کردیا، شدید کشیدگی پید اہوگئی۔ بھارت کاالزام ہے کہ چین نے موجودہ مون سون سیزن میں برہم پترا دریا کے ہائیڈرولوجیکل نہیں دئیے یعنی پانی کی نقل و حمل، تقسیم اور کوالٹی کے بارے میں سائنسی تجزیہ فراہم نہیں کیا۔ تاہم چین کا کہنا ہے کہ برہم پترا دریا کے پرہائیڈرولوجیکل کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے اور اس وجہ سے وہ بھارت کے ساتھ اعداد و شمار شیئر نہیں کر سکتا۔ برہم پترا دریا میں مون سون میں شدید سیلاب ہوتا ہے جس کے باعث انڈیا اور بنگلہ دیش میں کافی نقصان ہوتا ہے۔انڈیا اور بنگلہ دیش کے چین کے ساتھ معاہدے ہیں جن کے تحت مون سون سیزن کے دوران چین کو برہم پترا دریا کے ہائیڈرولوجیکل دونوں ممالک سے شیئر کرنا لازم ہے۔ بھارت کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے گزشتہ مہینے ایک پریس بریفنگ میں کہا تھا 'اس سال 15 مئی سے شروع ہونے والے مون سون سیزن پر چین نے ہمارے ساتھ برہم پترا دریا کے ہائیڈرولوجیکل شیئر نہیں کئے۔انہوں نے مزید کہا معلومات شیئر نہ کرنے کے پیچھے تکنیکی وجوہات کیا ہیں اس کے بارے میں ہمیں علم نہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان ایک نظام ہے جس کے تحت چین کو ہائیڈرولوجیکل شیئر کرنا لازمی ہے۔چینی وزارت خارجہ نے کہا تکنیکی وجوہات کی بناء پر معلومات شیئر نہیں کی گئیں۔لیکن بنگلہ دیش کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کو چین کی جانب سے برہم پتراا دریا میں پانی کی صورتحال کے حوالے سے معلومات موصول ہو رہی ہیں۔ ایک اعلیٰ اہلکار موفضل حسین نے بتایا 'ہمیں چند روز قبل ہی چین کی جانب سے برہم پترا دریا میں پانی کی سطح کے حوالے سے معلومات موصول ہوئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں 2002 ء سے تبت میں قائم تین ہائیڈرولوجیکل سٹیشنز سے معلومات موصول ہوتی ہیں اور اس مون سون سیزن میں بھی چین نے معلومات شیئر کی ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق بنگلہ دیش کے وزیر برائے پانی کے ذخائر انیس الاسلام نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ان کو چین سے ہائیڈرولوجیکل معلومات مل رہی ہیں۔