سیاستدان مرغیاں بیچتے ہیں اور عہدِ کربلا

نامور نعت گو شاعر محبوب و محترم حفیظ تائب کے بھائی مجید منہاس نے بتایا کہ کلثوم نواز کے گھر والے مصری شاہ میں رہتے تھے۔ اُن کے والد ڈاکٹر محمد حفیظ گھر کے پاس مسجد میں نماز پڑھ کے کچھ دور کوٹ خواجہ سعید کے قبرستان میں جاتے اور اپنے ماں باپ کی قبروں پر فاتحہ خوانی کرتے اور پھر گھر آتے۔ یہ اُن کا معمول تھا۔ کلثوم نواز بھی کبھی کبھی وہاں جاتی تھیں ۔ کلثوم نواز کی قبر تو جاتی امرا میں ہے۔ اب امیر کبیر لوگوں نے قبرستان بھی اپنے اپنے بنا لئے ہیں۔ کچھ نے تو ذاتی قبرستان بنا لئے ہیں یہ بھی کوئی جائیداد ہے شاید ۔ میں کالم کسی اور موضوع پر لکھنے لگا تھا۔ مگر کسی نہ کسی طرح بیگم کلثوم نواز کا ذکر آ جاتا ہے۔ ہر طرف سے یہ آواز آتی ہے کہ وہ ایک اچھی خاتون تھیں۔ یہ بات مریم نواز کے لئے خصوصی توجہ کی طالب ہے۔ تنقید ہوتی رہتی ہے چھوٹے بڑے حکمرانوں اور ان کے گھر والوں پر ، مگر کوئی کلثوم نواز کے لئے تنقیدی بات نہیں کرتا۔
عمران خان پر تنقید ہوئی ہے کہ وہ خصوصی طیارے پر سعودی عرب گئے ہیں ، وہ وزیراعظم ہیں۔ چھوٹے موٹے وزیر شذیر بھی خصوصی مراعات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کابل جانے کے لئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خصوصی طیارے کا استعمال کیا۔ ’’عمومی طیارے‘‘ عوام کے لئے بنتے ہیں۔؟
ایسے لوگ لاکھوں میں ہیں جنہوں نے عمومی طیارہ بھی دیکھا نہیں ہو گا۔ خصوصی طیارہ تو میں نے بھی نہیں دیکھا۔ سادگی کے دعوے کرنے والے عمران خان اوراُن کے ساتھی وہی کر رہے ہیں جو پچھلے حکمران کیا کرتے تھے۔
وزیراعظم ہائوس کی مہنگی گاڑیاں ا ور بھینسیں بیچنے سے کیا ہو جائے مگر پھر بھی لوگ خوش ہوئے کہ کچھ تو ہوا ہے۔ کیا عمران خان تبدیلی کے لئے یہی کچھ کریں گے۔ پہلے بھی حکمران بیرون ملک دوروں پر جاتے تھے، جن پر عمران خان زبردست تنقید بھی کرتے رہے ہیں۔ البتہ ان کا یہ اقدام قابل تعریف ہے کہ وہ مدینہ منوہ کی گلیوں میں ننگے پائوں چل رہے تھے۔
صدر عارف علوی پروٹوکول کے ساتھ قائد اعظم کے مزار پر گئے اور یہ بھی کہا کہ میرے منع کرنے کے باوجود مجھے پروٹوکول دیا گیا۔ یہ بات ایک لطیفے کی طرح ہے۔ دیکھیں گے کہ اب صدر صاحب کی کس کس بات کو نظرانداز کیا جائے گا۔ صدر صاحب ان لوگوں کے خلاف کارروائی کریں تو لوگوں کو اُن کی بات پر یقین آئے گا۔
خواجہ سعد رفیق نے شیخ رشید کی ریلوے کے حوالے سے تنقید پر اظہار خیال یا اظہار ناراضگی کرتے ہوئے دلچسپ بات کی۔ ریلوے کی زمین بیچنا اتنا ہی آسان ہے جتنا مرغی بیچ دینا۔ خواجہ صاحب یہ بھی بتائیں کہ یہ گھر کی مرغی ہے یا ہمسائے کی مرغی ہے اور یہ بھی بتائیں ۔ انہوں نے اور شیخ صاحب نے کتنی مرغیاں بیچی ہیں۔
اپنے ہر کھاتے پیتے بلکہ عام گھروں میں آغاز عمر میں موسیٰ خیل ضلع میانوالی میں ہمارے لڑکپن کے دن تھے اور مرغی پکتی تھی جب کوئی مہمان آتا تھا۔ ہم دعائیں کرتے تھے کہ کوئی مہمان آئے۔ تقریباً ہر دوسرے دن مرغی پکتی ہے اس لئے ہمارے اندر مہمان نوازی کی صفات ختم ہوتی جا رہی تھی۔ مرغی کا گوشت سستا ہے مگر اب مرغی اپنی لذت اور افادیت کھو چکی ہے۔
شکر ہے کہ کوئی چیز تو دیسی ہونے کے باوجود سستی ہے۔ پہلے مرغی پکڑنا مشکل ہوا کرتا تھا۔ پورے محلے کو خبر ہو جاتی تھی۔ مرغی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہم نڈھال ہو جاتے مگر تھکن کا احساس نہ ہوتا تھا۔ سنا ہے عمران خاں دیسی مرغی کے بہت شیدائی ہیں۔ کہیں دعوت ہو تو وہ صرف دیسی مرغی کی فرمائش کرتے ہیں۔
آج کا دن ایک مصروف دن ہے۔ اطلاع ملی ہے کہ نوازشریف مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزا اسلام آباد ہائی کورٹ نے معطل کر دی ہے۔ میں تینوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ کلثوم نواز کی رحلت کے بعد یہ خوشی کی خبر ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس اطہر من اللہ نے سنایا۔
خوشی مناتے ہوئے لوگوں میں مجھے شائستہ پرویز ملک اور پرویز ملک ،برادرم احسن اقبال ، خواجہ آصف لوگوں کے درمیان نظر آئے۔ اس حوالے سے ایک مفصل کالم لکھنے کا خیال آیا۔ اس واقعے کو سیاسی نہیں بنانا چاہئے۔ آپے سے باہر بھی نہیں ہونا چاہئے۔ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ سزا بھی عدالت کی طرف سے سنائی گئی اور سزا کا تعطل بھی عدالت کی طرف سے ہوا ہے۔
احسن اقبال کی طرف جو بات کی گئی وہ انہیں نہیں کرنا چاہئے تھی۔ تحمل سے کام لینے کا موقعہ یہی ہے۔ نیب کے لئے بھی کہا جا رہا ہے کہ اس کے وکیل نے مقدمے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ یہ بھی سوچنا چاہئے کہ نیب کے لئے کوئی فیصلہ عدالت سے ہوا ہے۔ ہمارے حکمران اقتدار میں ہوتے ہیں تو ایوانوں میں ہوتے ہیں۔ جب سابق حکمران بنتے ہیں تو عدالتوں اور جیلوں میں ہوتے ہیں۔ مجھے شاہ فیصل کی ایک دعا یاد آ رہی ہے۔ اے اللہ ہمیں سچے اور اچھے حکمران عطا کر۔ آمین
10 محرم قریب آ رہا ہے اور غم حسین کی خوشبو پھیلتی جا رہی ہے۔ یہ شعر زباں زد عام ہے۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
جوش ملیح آبادی نے انسان کو مخاطب کیا ہے۔ خطاب نہیں کیا۔ شاید عہدِ کربلا ابھی نہیں گزرا۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن