مہران نامہ ........الطاف مجاہد
سندھ میں اسٹریٹ کرائمز کا عفریت سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ کراچی صوبائی دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہونے کے ناطے صوبے کا چہرہ ا ور شناخت ہے یہاں 8 ماہ میں 22 ہزار موبائل فون اور 18 ہزار موٹر سائیکلیں چھینی جا چکی ہیں۔ یہ اعداد و شمار کسی اخباری رپورٹ کے نہیں سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی کے ہیں جسے سرکار کی سرپرستی میسر ہے۔ کراچی کے ضلع شرقی کو اسٹریٹ کرمینلز کی جنت قرار دیا جا سکتا ہے جہاں 11 ہزار 639 وارداتیں 8 ماہ میں ہوئیں دوسرے نمبر پر کراچی کا ضلع وسطی اور تیسرے نمبر ضر ضلع کورنگی وارداتوں کے اعتبار سے وکٹری اسٹینڈ پر کھڑا ہے موجودہ آئی سید جی سید کلیم امام ہوں یا ان کے پیش رو ہر ایک کا دعویٰ ہوتا ہے کہ مجرموں کو سزا ملے گی آئندہ ا جازت نہیں دینگے اور کوئی رعایت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری سمت مجرم ہیں جو رعایت ، سہولت اور اجازت کے بغیر دندناتے پھر رہے ہیں۔ جرائم کا یہ سلسلہ صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد اور تیسرے بڑے شہر سکھر تک پھیل چکا ہے یہاں تک کہ چھوٹے بڑے شہروں ا ور قصوں میں بھی عملاً ”ڈاکو راج“ نظر آتا ہے۔ ماضی بعید کا پُرامن کراچی گزشتہ کئی دہائیوں تک بدامنی کا گڑھ رہا ہے لیکن ٹارگٹڈ آپریشن نے اغواءبرائے تاوان ، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر جرائم کا آج کا کراچی اور سندھ متعدد مشکلات سے دو چار ہے صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کی کراچی آمد پر اہم فیصلے شہریوں کو خوش کر ئے کہ کراچی کے لئے نئے سیف سٹی پروجیکٹ ، فراہمی و نکاسی آب اور وفاقی حکومت کے اشتراک سے جاری منصوبوں پر پیش رفت سنائی گئی لیکن دیہی سندھ کے حوالے سے کوئی نوید سامنے نہیں آئی نہ ہی نہری پانی کی کمیابی کے باعث زرعی شعبے کی دادرسی کے لئے کسی پیکج کا اعلان ہوا ۔ ارسا کی فنی کمیٹی کے اجلاس کو بتایا گیا ہے کہ ربیع سیزن میں پانی کی کمی 45سے 50فیصد ہو سکتی ہے مالی بحران کے باعث صوبائی ترقیاتی بجٹ میں بھی 26سے 27ارب روپے کی کٹوتی کی جا رہی ہے سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں صوبے کے ایشوز پر تحفظات کا اظہار کیا باالخصوص سینئر صوبائی افسران کے تبادلوں پر تحفظات پی کئے اور کہا کہ پیشگی اطلاع کے بغیر تبادلے مناسب طریقہ لینا صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیا جائے وزیر اعظم عمران خان کو دورہ کراچی میں کم از کم سندھ کے خشک سالی سے متاثرہ تھر ، کاچھو ، ناہرا ، کوہستان اور اچھڑو تھر کے لئے وفاق کی جانب سے ادویہ ، گندم اور دیگر عنوانات میں مدد کا اعلان کر نا چاہیے تھا حکومت پاکستان ایک طرف افغانستان کو ہزاروں ٹن گندم عطیہ کر رہی ہے تو دوسری سمتخاتمہ تو کیا لیکن اسٹریٹ کرائمز کنٹرول نہ ہو سکے۔ سندھ کے دیہات میں غذائیت کی کمی کے باعث اور کم خوراکی کے سبب صرف سال رواں میں ساڑھے 4 سو بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ جس روز وزیراعظم کراچی میں تھے‘ اسی روز بھی تھر کے ہسپتالوں میں بچوں کی اموات ہوئیں‘ قحط سالی کے باعث تھر‘ عمر کوٹ‘ میرپور خاص‘ ٹھٹھہ‘ جام شورو‘ خیرپور و سانگھڑ کے ریگستانی و کوہستانی علاقوں سے متاثرہ افراد نقل مکانی کر رہے ہیں۔ سندھ کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وفاق کی جانب سے 19 ارب روپے نہ ملنے کی وجہ سے مسائل بڑھے ہیں اور مالی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور یہی سبب ترقیاتی فنڈز میں 27 ارب روپے کی کٹوتی کا باعث بنا ہے۔ سندھ میں منتخب ارکان سے بھی ابھی نئے ترقیاتی منصوبوں کی تجاویز طلب نہیں کی گئی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ نومبر کے اواخر میں نئی سکیموں کے حوالے سے ارکان اسمبلی کو خط لکھے جائیں گے۔ بہر کیف عمران خان کے دورہ کراچی‘ سندھ‘ دیہی کی سیاسی قیادت کو تحفظات ہوں نہ ہوں‘ عوامی سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے کہ انہیں باقی ماندہ سندھ بالخصوص حیدرآباد اور سکھر کیلئے ترقیاتی پیکیج دینے اور زرعی شعبے کی بحالی کیلئے اقدامات کا اعلان کرنا چاہئے تھا۔ جیکب آباد اور گھوٹکی کے باشندے تو پرامید تھے کہ پورے دیہی سندھ کے ان دو اضلاع نے ہی پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرز کو کامیاب کرایا‘ لیکن یہ بھی دیکھتے رہ گئے۔ البتہ پی ٹی آئی کے رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے آئندہ دورے میں اس حوالے سے اعلانات اور اقدامات کئے جائیں گے۔
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک