موجودہ کابینہ میں پانچ چھ وزرا ایسے ہیں جو خبروں میں ان رہتے ہیں ۔ ان میں وزیر قانون فروغ نسیم ، اٹارنی جنرل منصور احمد خان ، وزیر خزانہ اسد عمر ، فارن منسٹر شاہ محمود قریشی اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نمایاںہیں ۔ فواد چوہدری کے پاس اہم منسٹری نشرو اشاعت ہے ان کا خبروں میں ان رہنا بنتا ہے ۔اسی طرح ہمارے اٹارنی جنرل منصور احمد خان سپریم کورٹ کے ہر دوسرے کیس میں ہر روز پیش ہوتے ہیں ۔ہر کیس کا تمام ٹی وی چینلز پر تبصرے ہوتے ہیں ۔ اس لئے آپ بھی ان رہتے ہیں ۔ وہ اس سے پہلے بھی اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں ۔ لہذا یہ عہدہ ان کےلئے نیا نہیں ۔آپ نہایت نرم مزاج خوش اخلاق طبیعت کے مالک ہیں ۔ لا افسران نے عہدہ سنبھالتے ہی آپ سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا ۔ آپ کا یہی کہنا تھا کہ میں سیاسی بنیادوں پر فیصلہ نہیں کرونگا بلکہ پرفارمس اور میرٹ پر فیصلہ ہو گا کہ کس کو رکھنا ہے کس کو نکالنا ہے ۔ آپ سے ملنے میں وکلا کو کوئی دشواری نہیں آتی۔ آپ ہمیشہ تمام وکلا کےلئے اپنے دروازے کھلے رکھتے ہیں ۔ جبکہ وزیرقانون فروغ نسیم کے پاس دس روز قبل تک جانے ملنے میں کوئی دشواری نہیں تھی لیکن اب ایسا نہیں رہا ۔ چندروز قبل جب میڈیا پر فروغ نسیم کو سنا کہ آجکل اس کام پر مصروف ہیں کہ عوام کو جلد انصاف کیسے ملے ۔ اس کےلئے کام جاری ہے ۔ جس طرح آجکل ڈیم کے بناننے پر جس جوش و جذبہ سے کام ہو رہا ہے ۔اسی جوش و جذبہ کی ضرورت اسی کاز میں بھی ہے ۔ اس کےلئے جب جانا ہوا تو لا منسٹری میں تبدیلی دیکھنے میں آئی ۔ پہلے تو لامنسٹری تک پہنچنے میں کار پارکنگ کا مسئلہ پیش آیا ۔ڈبل پارکنگ بند کر دی ہے جس سے کافی دور جا کر کار پارک کرنا پڑی ۔پیدل چلنا پڑا۔ جب اس منسٹری کے تھرڈ فلور پر پہنچا تو سپریم کورٹ کے سینیئر وکلا دکھائی دئے ۔ انہیں کوری ڈور پر بٹھا رکھا تھا ۔ جب راقم نے جانے کی کوشش کی تو روکا دیا ۔ تعارف کرانے پر اندر جانے دیا گیا اس سے قبل کبھی کسی دور میں کسی وکیل وہ بھی سپریم کورٹ کے قانون دان کو اندر جانے سے نہیں روکا جاتا تھا ۔ بلکہ کانفرنس روم میں چائے پانی کے ساتھ بٹھا یا جاتا تھا ۔ ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا ۔ ایسا کیوں ہے ۔ شائد اس لئے کہ ملنے والوں کی تعداد میں شائد اضافہ ہو گیا ہو ۔ لیکن فروع نسیم وزیر بننے سے قبل وکلا کے نمائدے پاکستان بار کونسل کے ممبر اور سیاسی ورکر بھی رہ چکے ہیں ۔ لہذا وکلا سے دوری کے طریقے وہ اپنا نہیں سکتے ۔ آپ سے پہلے جو نگران وزیر قانون علی ظفر تھے انکے پاس تین چار منسٹریاں تھیں ۔ اس لئے بہت مصروف رہتے تھے لیکن وکلا سے ملنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی تھی ۔ لگتا ہے فروع نسیم کے علم میں یہ بات نہیں آئی ورنہ وہ نہایت ملن سار شخصیت کے مالک ہیں ۔امید ہے اس پر فروغ نسیم فوری ایکشن لیں گے اور وکلا پر اپنے دروازے بند نہیں کریں گے ۔ دو روز قبل راقم ایک ٹی وی ٹاک شو میں تھا ۔ انیکر نے پوچھا کہ آپ کے لا منسٹرکیا کچھ کر رہے ہیں ۔ جواب میں کہا یہ میں کہہ سکتا ہوں کہ رات گئے تک منسٹری میں بیٹھ کر کام کر رہے ہیں ۔ اچھے رزلٹ دیکھنے میں آئیں گے ۔ آپ اس کوشش میں ہیں کہ عوام کو عدالتوں سے جلد ریلف ملے ۔ تین روز قبل اسی سلسلے میں لا منسٹر سے ملنے گیا تھا کہ راقم بھی اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالے ۔ راقم نے اپنے تجربات سے جو سیکھا وہ شیئر کرنے آیا تھا لیکن آپ کی مصروفیات کی وجہ سے ملا قات نہ ہو سکی ۔ اس لئے یہ چند تجاویز آپ تک پہنچانے کی ایک کوشش ہے ۔ فیڈرل سروس ٹریبیونل میں وہ مقدمات جن کے فیصلے بنچ کے ممبران لکھتے ہیں ۔ اگر کسی پارٹی کو ممبران کا لکھا گیا فیصلہ پسند نہیں آتا تو ان کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں ۔ نمبرایک اسی بنچ کے سامنے پارٹی میں ریویو میں آ سکتے ہیں ۔ نمبر دو اگر ریویو میں نہیں جاتے تو پھر اس فیصلے کے خلاف ڈاریکٹ سپریم کورٹ میں سی پی ایل اے دائر کر سکتے ہیں ۔ اب اکثر یہ ہو رہا ہے کہ دونوں طرف ریویو میں جانے کے بجائے سپریم کورٹ سی پی ایل اے میںچلے جاتے ہیں ۔جب کہ ریویو کا فیصلہ ایک ماہ کے اندر ہو جاتا ہے جب کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ میں کم و پیش تین چار ماہ لگ جاتے ہیں ۔ پھر سپریم کورٹ کے اخراجات ڈبل یعنی اے او ار کی فیس اور وکیل کی فیس دیں گے ۔ ایسا اگر پرائیویٹ پارٹی کرتی ہے تو انہیں بھی روکا جائے ۔ لیکن اگر سرکار اس فیصلے کے خلاف بغیر ریویو کئے کے سپریم کورٹ جائیں گے تو سرکار کا جہاں مالی نقصان ہوتا ہے وہی وقت کا ضیائع بھی ہوتا ہے ۔ گزارش ہے کہ اگر کسی ادارے کے خلاف ایف ایس ٹی کا فیصلہ آ ئے تو یہ صرف اور صرف ریو یو میں ہی جایا کریں ۔ سپریم کورٹ اگر اپنا فیصلہ ایف ایس ٹی کا بر قرار رکھتی ہے تو ان پر بھاری جرمانے عائد کیا کریں ۔ ایسا کرنے سے سپریم کورٹ میں کم مقدمات دائر ہو نگے ۔اسی طرح عرض ہے کہ سپریم کورٹ پاکستان کے چاروں صوبوں میں بنائیں جائیں ۔جس میںہر صوبے کا اپنا چیف جسٹس ہو ۔ اسلام آباد کی سپریم کورٹ فیڈرل سپریم کورٹ ہو جہاں صرف اور صرف آئنی پیٹیشن دائر ہوں ۔ایسا کرنے سے سپریم کورٹ کے کیسسز کم دائر ہونگے اور فیصلے جلد ہوں گے ۔ اس طرح لوئر جوڈیئشری میں تبدیلی لانے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔ جس طرح سول سرونٹ کےلئے ایف پی ایس سی کا ادارہ قائم ہے ۔ جو سول سرونٹ کی سلیکشن اور دیکھ بھال کرتا ہے ۔ انہیں ٹرینگ دیتا ہے ۔ اگر جوڈیئشری کے لئے بھی ایسا ہی ادارہ الگ سا بنا دیا جائے تو اس میں جو ڈیشئری کا معیار میں بہتری آ سکتی ہے ۔ ہر شہری کو عدلیہ سے فوری ریلیف ملے ۔جو ابھی تک نہیں مل رہا ۔ یہ کسی ایک کا مسئلہ نہیں یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے لہذا اس کے لئے سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ سب کی مدد کی اپیل کریں ۔ خاص کر سپریم کورٹ کے وکلا اور سابق ججز صاحبان ان سے مشاورت کی جائے ۔ اشتہارات کے ذریعے تجاویز ما نگی جائیں ۔ ایک خصوصی کمیٹی اس سلسلے میں تشکیل دی جائے۔ اس کی نمادگی آپ خود کریں ۔ لا منسٹری میں خرم مغل جیسے کام کرنے والے افسران موجود ہیں ۔ ان سے فائدہ اٹھا ئیں ۔ اس حوالے سے ملک بھر کی بار ز میں بھی اپنی موجودگی میں سیمینار کا انعقاد کرائئیں ۔اس کےلئے ضروری ہے کہ ٹائم فریم بھی دیا جائے کہ اتنے عرصے میں قانون بنائیں گے ۔ دن بدن کیسسز کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اسے روکنا بہت ضروری ہے ۔اس سے انصاف کی رہ میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں ۔ لہذ ا اسے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ پہاڑ اور سمندر ہے ۔ وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم سے ہم سب امیدیں لگائیں بیٹھیں ہیں ۔ امید ہے قانون میں بہتری لانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور جلد وہ نوید سنائیں گے ۔ اگر فروغ نسیم اس دریا کو عبور کرنے میں اگر کا میاب ہو جاتے ہیں یقیننا ڈاکٹر فرو غ نسیم سپیشل ایوارڈ کے مستحق ہو نگے ۔ دعا ہے اﷲ ڈاکٹر فروغ نسیم کو یہ بڑاکام کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فر مائے ۔امین