اسلام آباد ( وقائع نگار خصوصی، نیوز رپورٹر) اپوزیشن جماعتوں نے نیب کی جانب سے خورشید شاہ اور دیگر گرفتاریوں کے خلاف قومی اسمبلی کے اجلاس میں شدید احتجاج کیا۔ اجلاس میں بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اجلاس میں شرکت کی۔ اپوزیشن نے وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کی جانب سے کشمیر سے متعلق اپوزیشن پر عائد کئے گئے الزام کا جواب نہ دینے پر سپیکر ڈائس کا ’’گھیرائو ‘‘ کر لیا۔ اس دوران ڈپٹی سپیکر اور احسن اقبال کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ ارکان کو فلور نہ دینے پر اپوزیشن نے احتجاجاً ایوان سے واک آئوٹ کر دیا۔ بعد ازاں اپوزیشن نے کورم کی نشادہی کر دی۔ جس پر ڈپٹی سپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا۔ جمعہ کو اپوزیشن نے گرفتار کئے گئے رہنمائوں کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کے خلاف پارلیمنٹ ہائوس باہر احتجاج کیا اور احتجاجی کیمپ بھی لگایا گیا ہے، کیمپ میں نواز شریف، آصف علی زرداری، رانا ثناء اللہ، اور شاہد خاقان عباسی کی تصاویر رکھی گئیں، کیمپ میں نواز شریف کی تصویر کے ساتھ قیدی برائے سیاسی تاوان اور بے گناہ سیاسی قیدیوں کو رہا کرو کے بینر آویزاں کئے گئے۔ وفاقی وزیر مراد سعید نے کہا کہ اپوزیشن نے کالی پٹیاں باندھی تو سمجھا دیر سے سہی کشمیر پر احتجاج کر رہے ہیں، پھر پتہ چلا اپنا ہی رونا رویا جا رہا ہے، پارلیمنٹ کے باہر جو تقریریں ہوئیں، وہ کسی کو سنانے کے لئے کی گئی ، پیپلزپارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کے الزامات لگاتے تھے لیکن احتساب کے خلاف یہ اکٹھے ہو گئے ہیں، خدارا کالی پٹیاں کشمیری بھائیوں کے لئے بھی پہنیں۔ جمعرات کو قو می اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس کے دوران اپوزیشن ارکان پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما سید خورشید شاہ کی نیب کی جانب سے گرفتاری کے خلاف ایوان میں سیاہ پٹیاں باندھ کر ایوان میں آ ئے اور احتجاج کیا۔ پاکستا ن پیپلز پارٹی کے راہنما اور سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ خورشید شاہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر سیاستدان ہیں ان کو جس انداز سے نیب نے گرفتار کیااس کی مذمت کرتا ہوں، ان کی تضحیک کی گئی، پارلیمنٹ کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان کی گرفتاری سے قبل سپیکر کو آگاہ نہیں کیا گیا تھا،خورشید شاہ کو نیب سوالنامہ بھیجتا تو وہ جواب دیتے یا طلب کرتا تو وہ حاضر ہوتے،وہ کون سا بھاگ کر جا رہے تھے کہ اس طرح سے انہیں گرفتار کیا گیا،ان کے خلاف تحقیق و تفتیش سے نیب کو کسی نے نہیں روکا تھا، یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاستدانوں کے خلاف کیا جارہا ہے، گرفتار کرنے سے قبل باقاعدہ کردارپوشی کی جاتی ہے،آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس ہر کسی پر بنایا جا سکتا ہے،پراپرٹی کا سرٹیفکیٹ تو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن خورشید شاہ پراپرٹی نہ ہونے پر سرٹیفکیٹ کہاں سے لائیں گے،یہ کہاں سے ملتا ہے،آصف زرداری، نواز شریف، فریال تالپورکو اس طریقے سے اٹھایا گیا یہ پارلیمنٹ کی تضحیک ہے،پی ٹی آئی کے ارکان کو نہیں اٹھایا جاتا صرف اپوزیشن کو گرفتار کیا جا رہا ہے، اسپیکر اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے اور ارکان کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جا رہا، کیا سپیکر کا کام نیب کا اعلامیہ ہی پڑھ کر سنانا ہے کہ رکن بدعنوانی میں ملوث ہے، سپیکر کو تفصیلات حاصل کرنی چاہئیں، خورشید شاہ کی گرفتاری افسوسناک اور قابل مذمت ہے،وہ ایک عزت دار سیاستدان ہیں،سپیکر کو چاہیے کہ وہ خورشید شاہ کو آئندہ اجلاس میں بلائیں اور جو نیب نے ان پر الزامات لگائے ان کا جواب دینے کیلئے موقع فراہم کریں۔ انہوں نے کہا کہ بطور سپیکر آپ اس پورے ایوان کے کسٹوڈین ہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ بھیڑ بکریوں کی طرح اس معزز ایوان کے ارکان کو جیل میں ڈالا جائے، آپ نیب کو طلب کریں اور ان سے پوچھیں کہ میرے ارکان نے کیا کیا بدعنوانی کی ہے، اس کے بعد خورشید شاہ کو ایوان میں بلوائیں اور ان سے ان الزامات کا جواب لیں یہ کرنے سے اس پارلیمان کی عزت بڑھے گی، پارلیمنٹ سب سے مقدس اور بالاتر ہے،اس کی عزت ہمیں بڑھانی ہے،اگر سپیکر صاحب ایسا نہیں کریں گے تو ہمیں مجبوراً بائیکاٹ کرنا پڑے گا۔پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے کہا کہ سپیکر کا کام ہے کہ تمام حقوق کا تحفظ کرے،اس ایوان میں کی گئی کوئی بھی بات کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی،اپوزیشن کو بند کرنے سے حکومت اپنی نا اہلیاں نہیں چھپا سکتی، پاکستان کی تاریخ میں اتنے پارلیمنٹیرینز گرفتار نہیں ہوئے جتنے اس حکومت کے دور میں ہوئے ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے کہا کہ حکمران اشرافیہ میں سیاستدان واحد برادری ہیں جو ایک دوسرے کی دشمنی میں سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں، باقی تمام طبقے اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے ایک ہوتے ہیں،مگر سیاستدان اپنے بھائیوں کی دشمنی میں پیش پیش ہوتے ہیں، خواجہ آصف نے کہا کہ بطور رکن میرا اور سپیکر کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے حقوق کا تحفظ کرے،ہمیں اپنی سیاسی برادری کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے،خواجہ آصف نے کہا کہ خورشید شاہ سینئر ترین پارلیمنٹیرینز میں شمار ہوتا ہے، وہ وزیر اور اپوزیشن لیڈر رہ چکے ہیں، گزشتہ تیس سال میں خورشید شاہ نے اپنے رویے سے اس ایوان کے تقدس میں اضافہ کیا جس کا میں گواہ ہوں، خواجہ آصف نے ڈپٹی سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ رولز کا سہارا نہ لیں، خدانخواستہ یہ وقت کسی پر بھی آ سکتا ہے اگر یہ وقت موجودہ حکومت پر آیا تو مجھ سمیت تمام اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے لوگ اس کا دفاع کریں گے،جب ہم پارلیمنٹ کی جڑیں کاٹتے ہیں اور باقی اداروں کا الٰہ کار بنتے ہیں تو ہم جمہوریت کی خدمت نہیں کررہے، اس معزز ایوان کے تمام گرفتار ارکان کے حقوق کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے،پیپلز پارٹی کے نواب یوسف تالپور نے کہا کہ یہاں خورشید شاہ کی گرفتاری کے حوالے سے کافی باتیں ہوئیں مگر نیب کی جانب سے ان کے ساتھ رویے کی کسی نے بات نہیں کی،نیب نے خورشید شاہ کو ان کے گھر کی دیواریں پھیلانگ کر اور جس کمرے میں وہ سوئے ہوئے تھے اس کا دروازہ توڑ کر انہیں گرفتار کیا، نیب نے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا، اس طرح کی گرفتاری ظاہر کرتی ہے کہ یہ احتساب نہیں بلکہ دشمنی کی بنیاد پر گرفتاری کی گئی ہے، خورشید شاہ پر آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام لگایا گیا، یہ الزام کسی پر بھی لگایا جا سکتا ہے، کل یہ الزام سپیکر اور ڈپٹی سپیکر پربھی لگ سکتا ہے،خورشید شاہ پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے اپنی جائیدادیں کسی اور کے نام پر رکھی ہوئی ہیں، مجھے کوئی بتائے کہ اکیسویں صدی میں کوئی اپنی جائیداد کسی اور کے نام کرتا ہے۔ وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے اپوزیشن ارکان کی تقاریر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن نے کالی پٹیاں باندھی تو سمجھا دیر سے سہی کشمیر پراحتجاج کر رہے ہیں، پھر پتہ چلا اپنا ہی رونا رویا جا رہا ہے، نیب کا چیئرمین آپ کا ہی لگایا ہوا ہے، اگرسوال اٹھتا ہے کہ آپ کے پاس پیسہ کہاں سے آیا توجواب ہونا چاہیے، وزیراعظم آج سعودی عرب اور پھر جنرل اسمبلی جا رہے ہیں، آج ہمیں پیغام دینا چاہیے تھا کہ کشمیر کے لئے ایک ہیں۔ کسی پر اگر کرپشن کا الزام ہو تو اس کا جواب دینا چاہیے، پارلیمنٹ کے باہر جو تقریریں ہوئیں، وہ کسی کو سنانے کے لئے کی گئی ، وزیراعظم باہر جا رہے ہیں، کشمیر کی اظہار یکجہتی پر تقریریں ہونی چاہئیں، بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ نے بیانات دیئے، سندھ دیش پختونستان کی بات ہوتی ہے، جس دن بیانات آتے ہیں، اس دن افغانستان سے فائرنگ کر کے جوان شہید کئے جاتے ہیں، وزیراعظم نے مودی کو دنیا میں بے نقاب کیا، پاکستان کا بیانیہ دنیا اٹھا رہی ہے، آپ کو اس پر خراج تحسین پیش کرنا چاہیے، 53سال بعد کشمیرپر سلامتی کونسل میں بات ہوئی، پاکستان کا بیانیہ عالمی میڈیا کو سپورٹ کرتا ہے، پاکستان کا کشمیر پر بیانیہ دنیا میں پہنچ چکا ہے، 44 دن ہو گئے ہیں کشمیر میں لوگوں کے پاس دوائی، خوراک اور مواصلات کا نظام نہیں ہے، وہ پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں ،مراد سعید نے کہا کہ خورشید شاہ کو میٹر ریڈر کا طعنہ دیا جاتا رہا، میٹر ریڈربھی اللہ کا بندہ ہوتا ہے ،مسلم لیگ (ن) کے وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ ایان علی اور بلاول بھٹو کو ایک ہی اکائونٹ سے پیسے جاتے ہیں،، خورشید شاہ پرمقدمات بھی سابق وزیرداخلہ نے بنائے تھے، اعتزازاحسن نے چوہدری نثار کو اسی ایوان میں بتایا کہ تم نے کرپشن کس کے ذریعے کی، سچ بات یہ ہے کہ دونوں ہی سچ بول رہے تھے، خدارا اپوزیشن کبھی کشمیریوں کے لیے بھی کالی پٹیاں باندھ کر آئٗے ، پانامہ جب آیا تو پی پی نے مسلم لیگ (ن ) کے خلاف بیانات دیئے، جب ٹی ٹی کیس سامنے آیا حمزہ اور شہباز شریف کے خلاف تو پی پی نے ان کے خلاف بیان دیئے،چوہدری نثار کو اعتزاز احسن نے کہا کہ آپ نے پپو پٹواری کے ذریعے کرپشن کی، چوہدری نثار نے اعتزاز احسن کو کہا کہ تم نے غیر قانونی لائسنس لے کر کرپشن کی ، ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کے الزامات لگاتے تھے لیکن احتساب کے خلاف یہ اکٹھے ہو گئے ہیں، خدارا کالی پٹیاں کشمیری بھائیوں کے لئے بھی پہنیں۔ جے یو آئی (ف) کے مولانا اسعد محمود اظہار خیال کرنے کھڑے ہوئے تو پی ٹی آئی رکن عاصمہ حدید نے شور شرابہ شروع کردیا۔ اس دوران عاصمہ حدید اور جے یو آئی (ف) ارکان کے درمیان سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا۔مولانا اسعد محمود نے کہا کہ عمران خان کے دورہ امریکہ کی بات ہوئی وہ پہلے بھی اپنے اقتدار کی بھیک مانگنے کے لئے گئے، آج بھی وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے جا رہے ہیں، عاصمہ حدید وہی خاتون ہیں جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے نیب کو سیاستدانوں کے خلاف انتقامی کاروائی کیلئے بینایا ہے، خورشید شاہ گرفتاری بحیثیت ممبر قومی اسمبلی ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہیں، پاکستان کے سب سے مضبوط ادارے کے ممبر کو اٹھا کر لے جایا جاتا ہے،سپیکر کی کرسی اپنی ذمہ داری اس طرح نہیں نبھا رہی جس طرح پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے، ان کی تقریر کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رکن عاصہ حدید نے ان پر آ وازیں کسیں ، جس پر جمیعت علماء اسلام کے ارکان نے جواب میں ان کو یہودی ایجنٹ کہا، مولانا اسعد محمود نے کہاکہ ہم کسی کے غلام نہیں ہیں، ارکان جس طرح کی باتیں کر رہے ہیں بند کرائیں، جمہوری رویہ اختیار کریں، یہ رکن جو بول رہی ہیں اس نے بیت المقدس اسرائیل کو حوالے کرنے کی بات کی تھی، ہم نے بات کرنے دی تا کہ دنیا کو پتہ چلا کہ یہ کس کے ایجنٹ ہیں، ذوالفقار علی بھٹوکو پھانسی دی جا سکتی ہے تو نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کو جیل میں ڈالا جا سکتا ہے، خورشید شاہ کو بھی جیل میں ڈالاجا سکتا ہے، نیب حکومت کا ترجمان بن کر سیاستدانوں کا استحصال کر رہی ہے، ہمارے سنجیدہ تحفظات ہیں کہ ہمارے وزیراعظم نے کشمیر کا سودا کیا ہے، کشمیر کی جنگ لڑیں گے، آپ کو اقتدار سے علیحدہ کر کے ہندوستان کو جواب دیں گے، کشمیر کے لئے لڑیں گے، پہلے وزیراعظم امریکہ کا دورہ کر کے آئے تو اپنا اقتدار کو طول دینے کیلئے اب اقتدار کی خیرات مانگنے کیلئے گئے ہیں۔مراد سعید کی تقریر کا جواب دینے کے لیے وقت نہ ملنے پر اپوزیشن نے احتجاج کیا،اس موقع پر مسلم لیگ(ن) کے راہنمااحسن اقبال نے مراد سعید کی تقریر کا جواب دینے کے لئے فلور مانگا تو ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے انکار کردیا، احسن اقبال نے کہا کہ مراد سعید نے ہمیں غدار بنا دیا آپ ہمیں موقع نہیں دے رہے، مراد سعید کا مشن ہے اپوزیشن کی کردار کشی کرے۔ جس پر ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ میں نے کسی کو موقع نہیں دیا، کسی کے دباؤ میں نہیں آؤں گا، ایوان کی روایت ہے اپوزیشن، حکومت دونوں ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں، احسن اقبال نے کہا کہ اپوزیشن پر الزام لگایا ہے، جواب دینے کا موقع دیا جائے، ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ ایجنڈا چلانا ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا، اس پر مسلم لیگ (ن)کے ارکان نے احتجاج شروع کیا اور سپیکر کے ڈائس کے سامنے آگئے۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ بلیم گیم کو ختم کرنا ہے، ایوان ایجنڈے کے تحت چلانے دیں، کسی کی پگڑی نہیں اچھالنے دوں گا، احسن اقبال نے کہاکہ مراد سعید نے اپوزیشن کے خلاف پگڑیاں اچھالی ہیں، جس پر ڈپٹی سپیکر نے کہاکہ یہ روایت بن گئی ہے اپوزیشن حکومت اور حکومت اپوزیشن پر الزام لگاتی ہے، کسی کے دبائو میں نہیں آئوں گا، سارے سیاستدان ہیں سیاسی تقریریں کرتے ہیں، آئین اور رولز کے مطابق ایوان کو چلانے دیں، کشمیر سب سے اہم ایشو ہے، اس پر بات کیوں نہ ہو، ادھر کام ہی یہی ہے، الزام لگاتے ہیں ایک دوسرے پر پہلے وقفہ سوالات مکمل ہو گا پھر موقع دوں گا، ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔ اس دوران ظہر کی اذان کے بعد ڈپٹی سپیکر نے 20منٹ کے لئے نماز کا وقفہ کردیا،وقفہ کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا اور ایجنڈا پر کاروائی کا آغاز ہوا تو اپوزیشن رکن ڈاکٹر ثمینہ نے کورم کی نشاندہی کردی جس پر ڈپٹی سپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا۔قبل ازیںقومی اسمبلی اجلاس کے سیشن کے دوران متحدہ اپوزیشن نے گرفتار کئے گئے رہنمائوں کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کے خلاف پارلیمنٹ ہاس اسلام آباد کے باہر احتجاج کیا۔ اس حوالے سے احتجاجی کیمپ بھی لگایا گیا ہے۔ کیمپ میں مسلم لیگ (ن)کے رانا تنویر، خواجہ آصف، ایاز صادق، مریم اورنگزیب اور مرتضی جاوید عباسی جب کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے نوید قمر اورشازیہ مری موجود تھیں۔احتجاجی کیمپ میں نواز شریف کی تصویر کے ساتھ قیدی برائے سیاسی تاوان اور بے گناہ سیاسی قیدیوں کو رہا کرو کے بینر آویزاں کئے گئے۔ احتجاجی کیمپ میں مسلم لیگ (ن) کے ترانے لگانے پر پیپلزپارٹی کی جانب سے اعتراض کیا گیا۔ شازیہ مری نے کہا کہ پارٹی ترانے نہیں لگنے چاہئیں، قومی نغمہ لگائیں، شازیہ مری نے پیپلز پارٹی کے ترانے بھی دے دیے،
اسلام آباد( وقائع نگار خصوصی) اپوزیشن جماعتوں نے اپنے ارکان پارلیمنٹ کی گرفتاری اور سپیکر کے طرز عمل کے خلاف پارلیمنٹ ہائو س کے باہر احتجاجی کیمپ لگایا اور اپوزیشن ارکان وقفے وقفے سے ’’سپیکر قومی اسمبلی استعفیٰ دو ‘‘کے نعرے بھی لگا تے رہے۔ احتجاجی کیمپ میں نواز شریف، آصف علی زرداری، شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اللہ اور خواجہ سعد رفیق کی تصاویر رکھی گئی تھیں جبکہ پوسٹرز پر قیدی برائے سیاسی تاوان، بے گناہ سیاسی قیدیوں کو رہا کرو، مریم نواز شریف کو رہا کرو ، کے نعرے درج تھے۔ احتجاجی کیمپ میں خواجہ آصف، رانا تنویرحسین، سردار ایاز صادق، طاہرہ اورنگزیب، مریم اورنگزیب، مرتضی جاوید عباسی، نوید قمر، شائستہ پرویز، مہرین رزاق بھٹو، شزا فاطمہ خواجہ، شازیہ مری، سید حسین طارق سمیت اپوزیشن جماعتوں کے پارلمنٹیرینز نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ احتجاجی کیمپ سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن رہنما ئوں نے کہا کہ اگر سپیکر نے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کئے تو ہم عدالتوں سے رجوع کریں گے۔ ملک میں جمہوریت پر حملے ہو رہے ہیں، پارلیمنٹ کا ادارہ مقتدر ادارہ ہے، سپیکر کے رویے سے پارلیمنٹ کی اتھارٹی کمزور ہو رہی ہے، نمائندوں کو نمائندگی سے محروم رکھا جارہا ہے ، پرویز مشرف کے زمانے میں بھی ایسا نہیں ہوا جو آج ہو رہا ہے، ہم اپنے حقوق کے لئے لڑیں گے ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈرخواجہ آصف نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے اسیر ارکان پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرکے ان کو حق نمائندگی سے محروم کیا ہے ،سینیٹ میں اسیر ارکان کو لایا جارہا ہے وہ حق نمائندگی ادا کر رہے ہیں ، پارلیمنٹ مقتدر ادارہ ہے ، سپیکر کے رویئے سے پارلیمنٹ کی اتھارٹی کمپرو مائز ہو رہی ہے ، ان اقدامات سے سپیکر کا حلف مجروح ہو رہا ہے، جاری اجلاس کے دوران خورشید شاہ کو گرفتار کیا گیا ، سپیکر ان کی گرفتاری سے لاعلم تھے ، خواجہ آصف نے کہا کہ ارکان کا اپنے حلقوں کی نمائندگی کرنے کااستحقاق ہے، ان کا حق چھینا جارہا ہے،ایسے ا قدامات 72 سال میں بہت سے لوگوں نے کئے وہ آج نہیں رہے،ملک میں جمہوریت پر حملے ہو رہے ہیں ، مسائل کو اجاگر کرنے کا موقع پارلیمنٹ میں نہ ملا تو ہمیں ایسے کیمپ لگانے پڑیں گے، سپیکر نمائندگی کا حق نمائندوں سے نہ چھینیں ، ہمیں نمائندگی کے حق سے کسی صورت محروم نہیں کیا جا سکتا ،سپیکر کے یہ اقدامات آئین سے ماورا ہیں، خواجہ آصف نے کہا کہ اگر پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کئے جاتے تو ہم عدالتوں سے رجوع کریں گے دو تین دنوں میں یہ سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ قانون سازی آرڈیننس کے ذریعے ہو رہی ہے ، الیکشن کمیشن میں بہت سے کیسز ہیں جن کی شنوائی نہیں ہو رہی جن میں فارن فنڈنگ کا کیس بھی ہے ، پاکستان پیپلز سید پارٹی کے پارلیمانی نویدقمر نے کہا کہ خورشید شاہ کو گرفتار کرنے سے ریکارڈ بن گیا اتنے ارکان پہلے کبھی گرفتار نہیں ہوئے ، یہ تاریخ کی بدترین مثال ہے ، نمائندوں کو نمائندگی سے محروم رکھا جارہا ہے ، مشرف کے زمانے میں بھی ایسا نہیں ہوا جو آج ہو رہا ہے ، اتنے لوگوں کو گرفتار کر کے اسمبلی میں نہ لانا یہ پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں ، ضیا الحق نے کوڑے لگائے ، جیلوں سے ڈرنے والے کوئی نہیں ہیں ، نوید قمر نے کہا کہ میڈیا ٹرائل کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے ،مہنگائی کا طوفان حکومت نے برپا کیا ہوا ہے ،لوگ آپ کے خلاف اٹھیں گے تو آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا ، ظلم کا دفاع کوئی نہیں کرے گا ،مخالفین کو جنہوں نے بھی ختم کرنے کی کوشش کی وہ خود ختم ہوگئے ، ایک کے بعد ایک رکن کو گرفتار کیا جارہا ہے ، آپ نے اسمبلی کو مفلوج کر کے رکھ دیاہے کوئی بات یہاں ہو ہی نہیں سکتی ، ہم اپنے حقوق کے لیئے لڑیں گے ، ہمارے تمام اسیر ارکان کو اسمبلی میں لایا جائے۔
کیمپ