پاکستان کولڈ اسٹوریج اور ڈیپ پروسیسنگ سے کھجوروں کو زیادہ  عرصہ تک محفوظ کر سکتا ہے

 اسلام آ باد  (نوائے وقت رپورٹ )  پاکستان کولڈ اسٹوریج اور ڈیپ  پروسیسنگ سے کھجوروں کو زیادہ عرصہ تک محفوظ کر سکتا  ہے ۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق کراچی میں کھجور کاکاروبار کر نے والے تاجر حبیب الرحمن نے رواں سال بہت زیادہ  مقدار میں  کھجوروں کی فصل لی  ہے تا حال مارکیٹ کے شگون ٹھیک نہیں ہیں۔ دس سال سے زیادہ عرصہ سے اس شعبے سے وابستہ ہونے  کے باجودموجودہ صورتحال ان جیسے تجربہ کار کے لیے بھی بے مثال ہے۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطا بق حبیب الرحمن  نے کہا میں گزشتہ سال  کی نسبت رواں  سال کھجوریں سستی بیچ رہا ہوں۔یہ کوئی انفرادی معاملہ نہیں بلکہ پوری کھجور مارکیٹ کا ہے۔ ایک مقامی مارکیٹ کے مالک حب علی جتوئی نے بتایا کہ قیمتوں میں کمی کے ساتھ کھجوروں کا منافع کم ہو رہا ہے۔ ماضی میں کم معیار والی کھجوروں کی قیمت  فروخت3000 رواپے  فی  40 کلو تھی ، لیکن اب یہ صرف 1500 روپے ہے۔ کراچی سے پشاور تک کھجوریں بیچنے والے منافع کے نقصان کی شکایت کر رہے ہیں   اور اس کے پیچھے وجوہات پیچیدہ ہیں۔ سعودی نیشنل ڈیٹ سینٹر کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق  مشرق وسطی کے ممالک کی برآمدات کا حجم 2021 کی پہلی ششماہی میں 185000 ٹن تک پہنچ گیا ہے ، جو کہ سالانہ 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہے۔ پاکستانی انٹرپرائز کے سینئر نائب صدر رامیش کمار نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں کھجور  کی قیمت میں کمی کی بنیادی وجہ مشرق وسطی کے ممالک سے بھاری درآمد ہے۔ یہ نظریہ بہت سے دوسرے مقامی لوگوں کی طرف سے گونجتا ہے۔ کراچی چیمبر آف کامرس کے جنرل سیکرٹری برائے کھجور حاجی حنیف نے کہا کہ گزشتہ سال کھجوروں کی قیمتیں مصنوعی طور پر بڑھا دی گئی تھیں کیونکہ سرحدوں کی بندش کی وجہ سے درآمد میں کمی تھی۔ چونکہ اس سال سرحدیں کھلی ہوئی تھیں جس میں بڑی مقدار میں کھجوریں پاکستانی مارکیٹ میں داخل ہو رہی تھیں ، انہیں کم قیمت پر کھجوریں فروخت کرنا پڑیں۔ کراچی میں کھجور فروش سجاد احمد کا خیال ہے کہ درآمد نے مقامی کھجوروں کی مارکیٹ کو نچوڑ دیا ہے۔  بہتر ہے کہ پہلے مقامی کھجوریں استعمال کریں ، ورنہ  یہاںبہت زیادہ ضیاع  ہو گا۔ تاہم ہر کوئی دلیل پر متفق نہیں ہے۔ کراچی چیمبر آف کامرس فار ڈیٹس کے صدر محمد صابر نے نشاندہی کی کہ مقامی کھجورکی پیداوار اتنی زیادہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا عراق سے 12000 ٹن  اور ایران سے 15000 ٹن سے 20000 ٹن  کھجور درآمد کی جاتی  ہے۔ درآمدات کے بغیر  ہم مقامی  مارکیٹ کی کھپت کو پورا نہیں کر سکتے۔کولڈ اسٹوریج شاید وہ لفظ ہے جو اکثر  کھجور  کے دکانداروں کے ذہن  میں آتا ہے۔ سجاد اب تک اپنا ایک چوتھائی اسٹاک بیچ چکا ہے اور باقی کو فروخت کرنے میں ایک سال لگ سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس کا بہت سے اسٹور مالکان کو سامنا ہے۔ لہذا کھجوروں کو کولڈ سٹوریج میں کیسے ذخیرہ کیا جائے ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے نقصانات کو جتنا ممکن ہو واپس کریں۔حبیب نے کہا اگر کولڈ اسٹوریج  ہو  تو یہ کھجوریں تین سال ، یا پانچ یا چھ سالوں میں بھی خراب نہیں ہوں گی۔  تاہم بہت سارے اسٹور مالکان کولڈ اسٹوریج کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ حاجی حنیف چاہتے تھے کہ پاکستانی حکومت کھجور کے ماہرین کے لیے کولڈ اسٹوریج پر سبسڈی دے ، یا کم از کم ان کے لیے کچھ کولڈ اسٹوریج بنائے ، سکھر میں اب  ایک یا دو مقامی کولڈ اسٹوریج   ہیں ، جو کہ کافی حد تک دور ہیں۔  جو وے  آئی کیو آئی کے چیف اکانومسٹ شان سعید نے کہا کہ پاکستان میں کھجوروں کی پیداوار کا سب سے بڑا مسئلہ کولڈ سٹوریج کی ناکافی سہولتیں ہیں ، اس کے بعد لاجسٹکس کے مسائل ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر کے ساتھ لاجسٹکس کے مسئلے کو بہتر بنایا جائے۔   کولڈ اسٹوریج میں تازہ کھجوروں کو ذخیرہ کرنے کے علاوہ   پاکستانی کسان انہیں خشک کرتے ہیں جو پورے موسم میں فروخت کی جا سکتی ہیں۔ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر شمس الاسلام نے کہا کہ روایتی کھجور  کی فروخت کا موسم رمضان میں ہے۔ اس سال رمضان کے بعد برآمدات کی سست کارکردگی کی وجہ سے ہمارے کاشتکار نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن