ایک جانب بھارتی پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ نے اپنی رخصتی کے فورا بعد حسب روایت پاک فوج اور اس کے اداروں کو حرف تنقید بنایا ہے اور بنا کسی منطقی جواز کے پاکستان کیخلاف بے بنیاد الزام تراشی کی ہے۔اسی تناظر میں ماہرین نے کہا ہے کہ سبھی جانتے ہیں کہ پنجاب شمالی بھارت کا اہم صوبہ ہے۔ برصغیر کی یہ ر یاست شمال اور شمال مشرق میں بھارتی ریاستوں ہماچل پردیش، جنوب اور جنوب مشرق میں ہریانہ اور جنوب مغرب میں راجستھان، بھارتی یونین ٹریٹری سے چندی گڑھ تک واقع ہے۔واضح ہو کہ بھارت نے کشمیر کے ایک بڑے حصے پر اپنا غیر قانونی قبضہ جما رکھا ہے ۔بھارتی پنجاب 50,362 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے جو ہندوستان کے کل جغرافیائی رقبے کا 1.53 فیصد ہے۔ یہ رقبے کے لحاظ سے ہندوستان کا20 ویں بڑی صوبہ ہے۔ 27 ملین سے زائد باشندوں کے ساتھ، پنجاب آبادی کے لحاظ سے 16 ویں بڑا صوبہ ہے جو 23 اضلاع پر مشتمل ہے۔ پنجابی گورمکھی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ بھارتی پنجاب میں 58فیصد سے زائد آبادی سکھ مذہب کو ماننے والی ہے اور عرصہ دراز سے وہاں بھارت سے آزادی کی تحریک چل رہی ہے جو کہ روز بروز مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔یاد رہے کہ بی جے پی کی غاصبانہ پالیسیوں کے باعث ہندومت کیخلاف سکھوں کے جذبات میں مزید اضافہ ہوا ہے اور اس سلسلے میں کسان تحریک اور 26 جنوری کے واقعے نے سکھوں میں اپنے مذہبی تشخص کو مزید نمایاں کرنے کی تحریک پیدا کی۔ مبصرین کے مطابق آگے چل کر شرومنی اکالی دل دوبارہ پنجاب میں اپنے قدم مضبوط کر لے گی۔اگر اس ضمن میں پاکستانی میڈیا بھی اپنی زمہ داریاں نبھائے اور آنند پور صاحب قرارداد کے حوالے سے سکھوں میں آگاہی عام کی جائے تو ممکن ہے یہی قرارداد، خالصتان کے قیام کیلئے بھی راہ ہموار کرنے میں مدد دے۔ یہاں یہ بات قارئین کیلئے جاننا ضروری ہے کہ پنجاب اور ہریانہ کا صوبائی دارالحکومت چندی گڑھ ہے یوں یہ بھارت کا واحد صوبہ ہے جہاں پربیک وقت 2وزرا ئے اعلیٰ ،2آئی جی اور 2چیف سیکرٹری موجود ہوتے ہیں۔حالانکہ یک نومبر 1966میں جب ہریانہ اور پنجاب کو الگ صوبائی درجہ دیا گیا تھا تو طے پایا تھا کہ 10برس میں ہریانہ اپنا دارالحکومت الگ بنا لے گا لیکن 55 سال گزرنے کے باوجود تاحال اس پر عمل نہیں ہو سکا ۔جس کی وجہ سے سکھوں میں شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔
اس تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ بھارتی پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ نے 1965کی پاک بھارت جنگ کے تناظر میں لکھی اپنی تحریروں میں اعتراف کیا ہے کہ 1965کی پاک بھارت جنگ میں بھارت کو بری طرح شکست ہوئی تھی۔واضح رہے کہ موصوف اُس وقت خود بھارتی فوج میں کیپٹن کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے اور اُسی دوران نریجن پرشاد اپنی جیپ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اوراُن کی جیپ سے پاک فوج نے ڈائری اور نقشے بر آمد کیے تھے جس میں بھارتی فوج کے حملے سے متعلق اہم معلومات درج تھیں۔واضح ہو کہ امریندر سنگھ سر یاوندرا سنگھ اور پٹیالہ کی رانی مہندر کور کا بیٹا ہے اور امریندر سنگھ کا ایک بیٹا رانیندر سنگھ اور ایک بیٹی جئے اندر کور ہے۔ ان کی اہلیہ پرینیت کور نے بھارتی رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور 2009 سے اکتوبر 2012 تک بھارتی وزارت خارجہ کی وزیر مملکت تھیں۔قارئین کی معلومات میں یہ امر شائد اہم ہو کہ امریندر سنگھ کی بڑی بہن ہیمندر کور کی شادی سابق بھارتی وزیر خارجہ ’’کے نٹور سنگھ‘‘ سے ہوئی ہے۔ امریندر کا تعلق شرومنی اکالی دل (اے) سپریمو اور سابق بھارتی پولیس ایس پی’’ سمرنجیت سنگھ مان‘‘ سے بھی ہے۔ مان کی بیوی اور امریندر سنگھ کی بیوی، پرینیت کور سگی بہنیں ہیں۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ سمرنجیت سنگھ مان اندرا گاندھی کے قتل کی سازش میں بھی ملوث تھا اور اس ضمن میں وہ کئی برس جیل میں رہا۔ دوسری جانب قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے غالبا صحیح کہا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان جنگ کے خاتمے کیلئے مذاکرات اورسیاسی تصفیے کی حمایت کی۔ پاکستان افغانستان میں جنگ کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے جس میں ہمیں 80 ہزارسے زائد جانی نقصان اور 150 بلین ڈالرسے زائد کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔اسی ضمن میں مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف جعلی بیانیہ بنایا اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال کیا۔اب افغانستان میں انسانی بحران نہ پیدا ہونے دینا عالمی برادری کی اجتماعی ذمہ داری ہے اس سلسلے میں عالمی برادری کو اپنی کوششوں کو مربوط کرنا چاہیے جب کہ طالبان نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ کام کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ عالمی برادری کوبڑی طاقتوں اورافغانستان کے قریبی پڑوسیوں کے ساتھ اتفاق رائے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لیتے سنجیدہ حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ محض توقع ہی ظاہر کی جاسکتی ہے کہ عالمی رائے عامہ مثبت طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی انسانی ذمہ داریوں کو احسن ڈھنگ سے پورا کرئے گی۔