حکمران اتحاد اور حزبِ اختلاف کے مابین عام انتخابات کا انعقاد مسلسل کھینچا تانی کا موضوع بنا ہوا ہے۔ حزبِ اختلاف کی خواہش ہے کہ جلد از جلد انتخابات کا اعلان کر کے حکمران اتحاد اقتدار نگران حکومت کے سپرد کردے لیکن حزبِ اقتدار اس خیال سے یکسر مختلف سوچ کی حامل ہے، لہٰذا اس کی طرف سے بار بار یہی کہا جارہا ہے کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔ اسی حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے لندن میں ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی کی دھونس اور دھمکی سے انتخابات پہلے یا بعد میں نہیں ہوں گے، عام انتخابات مقررہ تاریخ پر ہی ہوں گے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان جاری یہ رسہ کشی کب تک چلتی رہے گی اور اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ ماضی کے واقعات یہی بتاتے ہیں کہ حالات کب کس رخ پر چل نکلیں، کوئی نہیں جانتا۔
خیر، وزیراعظم محمد شہباز شریف نے عام انتخابات کے انعقاد اور دیگر اہم امور سے متعلق لندن میں سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے قائد محمد نواز شریف سے تین گھنٹے کی ملاقات کی جس کے دوران دباؤ کے باوجود عام انتخابات مقررہ وقت پر کروانے پر اتفاق ہوا۔ ملاقات میں دونوں رہنماؤں کے سوا کوئی بھی شریک نہیں تھا۔ اطلاعات کے مطابق، اس دوران نومبر میں ہونے والی پاک فوج کے سربراہ کی تعیناتی سے متعلق بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ شہباز شریف نے حکومت کو درپیش اہم معاملات کے حوالے سے نواز شریف سے مشاورت بھی کی۔ اس موقع پر نون لیگ کے قائد نے وزیراعظم کو ہدایت کی کہ وہ ہرقسم کا دباؤ مسترد کرکے کام کرنے اور عوام کو ریلیف دینے اور سیلاب کے اثرات سے ملک وقوم کو نکالنے پر توجہ دیں۔ موجودہ حالات میں یہ ہدایت ہے تو بہت اہمیت کی حامل لیکن دیکھنا یہ ہے کہ حکومت آنے والے دنوں میں واقعی عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے کچھ کرتی بھی ہے یا محض زبانی جمع خرچ سے ہی کام چلایا جاتا ہے۔
دوسری جانب، سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اتوار کو پنجاب کابینہ کے ارکان سے ملاقات کے دوران کہا کہ فوری انتخابات تحریک انصاف کی نہیں بلکہ ملک کی ضرورت ہیں۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں کامیابی تحریک انصاف پر عوامی اعتماد کا اظہار ہے۔ ملاقات میں پنجاب کے انتظامی و سیاسی امور پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر عمران خان نے کہا کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں، ہمیں جلد انتخابات کی طرف بڑھنا ہے۔ انقلاب ہماری دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔ پرامن انتخابات کے ذریعے انقلاب کا راستہ فراہم کیا جائے۔ عمران خان اپنی عجلت پسند طبیعت کی وجہ سے ہر کام میں جلد بازی کے قائل ہیں، خواہ اس کا نتیجہ منفی ہی کیوں نہ برآمد ہو۔ اپنے اسی مزاج کی وجہ سے وہ منصوبہ بندی پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے وہ مسلسل عوام سے یہ کہتے رہے کہ ان کے پاس تجربہ کار ٹیم ہے جسے نہ صرف مسائل کی پوری سمجھ ہے بلکہ وہ انھیں حل کرنے کے لیے جامع حکمتِ عملی بھی بنا چکی ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ پونے چار سال یہی کہتے رہے کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ مسائل کی نوعیت کیا ہے۔
عمران خان اپنے اسی رویے کی وجہ سے ہر معاملے کو سیاسی رنگ دینے کا بھی رجحان رکھتے ہیں۔ آرمی چیف کی تعیناتی جو عام حالات میں ایک غیر سیاسی معاملہ ہے اور اسے کسی بھی طرح سیاسی نہیں بنایا جاسکتا، اس کے حوالے سے بھی عمران خان نے اپنے بیانات اور تقریروں کے ذریعے ایک ایسی فضا پیدا کردی ہے کہ حکمران اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو بار بار کہنا پڑ رہا ہے کہ اس معاملے کو سیاست سے دور رکھا جائے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی لندن میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فوجی سربراہ کی تقرری کی تاریخ ابھی دور ہے تاہم اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف کی وزارتِ دفاع اور جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) سے مشاورت ہوگی۔ اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی پر حکومت کو کوئی پریشانی نہیں، یہ صرف عمران خان نے رونا پیٹنا مچا رکھا ہے۔
آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ تو اپنے وقت پر طے پا جائے گا لیکن اس وقت حکومت کو سب سے زیادہ توجہ اس معاشی صورتحال پر دینی چاہیے جس کا بگاڑ عوام کے مسائل میں مسلسل اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ تقریباً ساڑھے پانچ مہینے کے دوران حکومت نے اشیائے خور و نوش کی قیمتوں اتنی بڑھا دی ہیں کہ ملک کے ہر کونے سے حکمران اتحاد کی مخالفت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر جس طرح گراوٹ کا شکار ہوئی ہے وہ بھی ایک ایسا معاملہ ہے جس نے حکومت کی غیر مقبولیت اور عوام کے مسائل کو بڑھایا ہے۔ حکمران اتحاد اپنی آئینی مدت ضرور پوری کرے لیکن اسے عوام کا احساس کرتے ہوئے ان کے مسائل حل کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ اسی کام کے لیے انھیں مینڈیٹ دیا گیا ہے۔ اگر حکومت عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ نہیں دیتی اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ہر شرط کو مان کر مسلسل مہنگائی میں اضافہ کرتی جاتی ہے تو آئندہ عام انتخابات میں اس کا نتیجہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے لیے پریشان کن ہو گا۔