بلاول کا اپنی33ویں سالگرہ پر مرتضی بھٹو کو خراج عقیدت
کیا عجیب بات ہے۔ بلاول زرداری کو اپنی 33ویں سالگرہ پر اپنے ماموں مرتضی بھٹو کی یاد ستانے لگی۔ اپنی سالگرہ کے دن انہوں نے مرتضی بھٹو کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ ان کی جدوجہد اور کارکن دوستی کو سراہا۔ اب معلوم نہیںآصف زرداری کو اپنے فرزند کا یہ قصیدہ درمدح مرتضی بھٹو کتنا ناگوار گزراہوگا۔کیوں کہ مرحوم سے زرداری صاحب کے تعلقات ناصرف خراب بلکہ خاصے کشیدہ تھے اور ان کی آپس میں نہیں بنتی تھی۔ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں 70 کلفٹن میں مرحوم بھٹو کے گھر کے سامنے پولیس کے ودیگر لوگوں نے مرتضی کو انکے ساتھیوں سمیت بے دردی سے قتل کیا ۔ چلیں چھوڑیں یہ قصہ مختصر کرتے ہیں۔ دراصل لگتاہے بلاول جی کو پریشانی اس وقت میر ذوالفقار علی بھٹو جونئیر سے ہے جو بھٹو کا پوتا اور مرتضی کا بیٹا ہے۔ بڑے عرصے تک خاموش زندگی بسر کرنے کے بعد اب وہ کچھ سماجی معاملات میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔ عوام سے گھلنے ملنے لگے ہیںتو میڈیا خاص طور پر سندھ کے میڈیا نے انہیں خوب کوریج دی۔سندھ سیلاب زدہ علاقوں کے دورے میں جہاں پیپلز پارٹی کے وزیر،مشیرگئے ان کووہاں پتھر مارے گئے۔ مخالفانہ نعروں سے انکا استقبال ہوا انہیں واپس بھاگنے پر مجبور کیاگیا۔انہی تباہ حال علاقوں میں میر ذوالفقار جونئیر کا والہانہ استقبال ہواہے۔ جو پیپلز پارٹی کی حکومت اور رہنماؤں کے لیے پریشان کن ہے۔ اسی لیے اب بلاول جی نے اپنے ماموں کو اچھے لفظوں میں یاد کرکے ان سے اپنا رشتہ جوڑنے کی کوشش کی ہے،تاکہ سندھی عوام خوش ہوں۔
٭٭٭٭٭
نینسی پلوسی نے آرمینیا کے ساتھ لڑائی کا الزام آذربائیجان پر لگادیا
یہ تو امریکہ کی ادائے خاص ہے۔ وہ جب چاہے کسی کا الزام کسی پر لگادے۔ اردو میں اس کو ’’طوطے کی بلا بندرکے سر‘‘ کہتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں اس وقت جب وسطی ایشیائی ریاستوں میں روس اور یوکرائن تنازعہ کی وجہ سے پریشانی پھیلی ہوئی ہے۔ اب آرمینیا اور آذربائیجان میں بھی جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔ اس سے علاقے میں مزید تباہی پھیل سکتی ہے۔ بہتر تو یہی تھا کہ یہ ریاستیں اپنے مسائل خود حل کرتیں۔ ورنہ وہی ہوگا جو ہوتاآیاہے۔ بلیوں کی لڑائی میں ساری پنیر بندر لے اڑے گا۔ امریکہ کو تو ایسا ہی شوق ساہے کہ دوسرے کی آگ بجھانے کی بجائے اس میں فریق بن کر وہ بھی زبردستی کا اس آگ کو مزید بھڑکانے کی کوشش کرتاہے۔ اگرامریکہ حقیقی ہمدردہوتاتو یوکرائن کو روس سے لڑاکر اسکو تباہ کرنے کی بجائے روس سے مذاکرات کے راستے معاملات اور مسائل حل کرنے کی راہ سجھاتا۔ مگر یہاں تو امریکہ مان نہ مان میں تیر امہمان بن کر زبردستی اس جنگ میں شامل ہواہے۔
اب امریکی کانگریس کی سپیکر نینسی پلوسی نے بھی حدکردی اور بناکچھ سوچے سمجھے آرمینیا سے تنازعہ میں آذربائیجان کو قصور وارٹھہرادیا۔یہ عجب تماشہ ہے۔ صاف لگتاہے امریکہ دونوں ملکوں کے درمیان فریق بن کر آذربائیجان کیخلاف محاذ کھول رہاہے۔ شاید اس لیے کہ وہ ایک مسلم ملک ہے اور آرمینیا عیسائی ریاست ہے۔ یہی دوغلی پالیسیاں امریکہ کو اپنے دوستوں سے دورلے جانے کا باعث بنتی ہیں۔ جس کی وجہ سے امریکہ کو سامراجی طاقت کہہ کرمخالفین اس کے مخالف گروپ کی حمایت کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان پہلا ٹی ٹونٹی میچ آج ہوگا
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ انگلینڈ کی ٹیم 17سال بعد پاکستان کے دورے پر آئی ہے۔ یوں لگتاہے پاکستان کے پرخطر ہونے کا منفی تاثر زائل ہوگیاہے۔ یہ تاثر ہمارے دشمنوں نے کچھ اس طرح پھیلایا تھا کہ غیر ملکی ٹیمیں پاکستان آنے سے کترانے لگی تھیں۔ اب شکر ہے ایسانہیں۔ کرکٹ پاکستانیوں کا دل پسند کھیل ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی اپنی شناخت ہے۔ خاص طورپر ون ڈے اور ٹی ٹونٹی میچز میں تو پاکستانی ٹیم کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔ دنیا کے بہترین تیز رفتار باؤلر اور بہترین بیٹنگ کرنے والے بلے باز بھی پاکستانی ٹیم میں شامل ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ اگر کچھ نہ کرنے پر آئیں تو توچل، میں آیا والا کھیل کھیلتے ہیں۔ آسان سے آسان کیچ بھی ڈراپ کردیتے ہیں۔ چوکے چھکے روکنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے ساتھ ہی باؤلنگ کرانا بھی بھول جاتے ہیں۔آج کراچی میں دونوں ٹیمیں مدمقابل ہوں گی۔ انگلینڈ کی ٹیم بھی پانسہ پلٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ دنیا کے بہترین کھلاڑی اس ٹیم میں شامل ہیں۔ انہیں آسان لینا خطرناک ہوسکتاہے۔ اس لیے ہماری تمام تردعائیں پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہیں۔ سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ تمام میچوں کے لیے دستیاب ٹکٹس فروخت ہوچکے ہیں یو ںبھی تماشائیوں سے کھچاکھچ بھرے میدان میں میچ کھیلنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتاہے۔ اس لیے پاکستانی کرکٹ شائقین سنسنی خیز اور زبردست ٹی ٹونٹی مقابلوں کے لیے تیاراور اپنی اپنی پسند کی ٹیم کو پر جوش داد دینے کے لیے میدان میں موجود ہوں گے۔
٭٭٭٭٭
بھارتی دباؤمسترد ، کینیڈاا میں خالصتان کے لیے ریفرنڈم میں سکھوں کی بھر پور شرکت
بھارت کی مودی سرکار نے بڑازورلگایا ۔ دباؤ ڈالا مگرکینیڈانے اپنے جمہوری چہرے پر منافقت کا نقاب نہیں ڈالا۔ یہ کام نام نہادبھارت کے سیکولر حکمران ہی کرسکتے ہیں۔ جو سیکولرازم اور جمہوریت کے نام پر سامراجیت اور ہندوتوا کو پھیلاکر بھارت میں اقلیتوں کی زندگی اجیرن کررہے ہیں جن میں مسلمان سرفہرست ہیں۔ گولڈن ٹمپل کی بربادی کی داستانیں ابھی تک سکھوں کو نہیں بھولیں۔ وہ بھولنا بھی چاہیں توبھلانہیں سکتے۔ ہزاروں سکھ گولڈن ٹمپل میں خالصتان کے نام پر قربان ہوئے تھے۔ پھر اندراگاندھی کے قتل کے بعد مزید ہزاروں بے گناہ سکھوں کا قتل عام ہوا۔ یوں خالصتان کی جوت سکھوں کے لہوسے جلتی رہی۔ سکھوں کی عالمی تنظیم سکھ فار جسٹس کے رہنما نے کہا ہے کہ اس ریفرنڈم کے نتیجے کے بعد ہم اقوام متحدہ میں اپنا کیس لے کرجائیں گے کیونکہ سکھ بھارت سے علیحدہ ہو کر اپنی علیحدہ ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی پیشکش بہت پہلے ہمارے رہنما بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کرچکے تھے مگرا س وقت مہاتما گاندھی کا بھوت تاراسنگھ جیسے لیڈروں کے حواس پر سوار تھا جواب اتر چکاہے۔کینیڈا میںبھی باقی دنیا کی طرح جہاں جہاں سکھ آبادہیں انہوںنے بڑے جوش وخروش سے اس ووٹنگ میں حصہ لیا۔ لاکھوںووٹ کاسٹ ہوئے۔ اب دیکھتے ہیں نتائج آنے کے بعد مودی حکومت کے کس طرح بارہ بجتے ہیں۔ کیونکہ اب بھارتی حکمرانوں کابولو رام ہونے والاہے۔ خالصتان کا قیام حقیقت میں کشمیر کی آزادی کا بھی نقیب ثابت ہوگا۔
٭٭٭٭٭
منگل، 23 صفرالمظفر1444ھ،20 ستمبر 2022 ء
Sep 20, 2022