دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف نظام بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ کہیں بادشاہت ہے تو کہیں صدارتی نظام حکومت ہے۔ کہیں پارلیمانی جمہوری نظام ہے، کہیں فوجی اور سویلین ڈکٹیٹر شپ ہے۔ لیکن وہاں کے عوام مطمئن ہیں اور وہ نظام عوام کو ڈیلیور کر رہے ہیں۔ ہم نے ہرقسم کے نظام آزما کر دیکھ لیے ہیں نہ عوام مطمئین ہو رہے ہیں نہ ملک میں بہتری آرہی ہے۔ اگر اختیار صدر مملکت کے پاس آجاتا ہے تو وزیر اعظم اور پارلیمنٹ ربڑ سٹیمپ بن جاتی ہے۔ اگر وزیر اعظم کے پاس اختیارات آجائیں تو پکڑائی نہیں دیتا۔ وہ پوری ریاست کے تمام امور اپنی ماتحتی میں کر لیتا ہے۔ صدر سمیت تمام ادارے ٹکے ٹوکری ہو جاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ شروع سے ہی طاقت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اگر وہاں کوئی تگڑا بندہ آجائے تو اپنی من مرضی سے باز نہیں آتا۔ عدلیہ کا سربراہ من مانی پر آجائے تو وہ سب کو لائن حاضر کر لیتا ہے اور ہر کام اپنی مرضی ومنشا کے مطابق چاہتا ہے یہاں تک کہ اگر چیف الیکشن کمشنر پھوں میں آجائے تو وہ نہ سپریم کورٹ کی بات مانتا ہے نہ صدر مملکت کو کسی کھاتے میں لاتا ہے۔
پاکستان میں کوئی نظام کارآمد نہیں ہم نے ہرقسم کے تجربات کر کے دیکھ لیے ہیں۔ دراصل یہاں نظام کی بجائے اس کو چلانے والی شخصیات اہم سمجھی جاتی ہیں اور سارا سسٹم شخصیات کی خواہشات کے تابع ہو جاتا ہے۔ یہ عملدرآمد کروانے والی شخصیات پر منحصر ہے کہ وہ نظام کی موم کی ناک جس طرف چاہے مروڑ لے۔ چیک اینڈ بیلنس ہمارے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اختیارات فرائض کاتقاضہ کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اعتدال بالکل نہیں۔ اگر آپ بھوک سے ایک دو روٹیاں زیادہ کھا لیں تو آپ کو بدہضمی ہو جاتی ہے۔ وہاں بھی اعتدال ضروری ہے لیکن ہم ہر معاملے میں انتہا پسند واقع ہوئے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کوئی کسی کی معمولی سی بات برداشت کرنا بھی گوارا نہیں کرتا یہاں تک کہ بچے والدین کی بات برداشت نہیں کرتے۔ ہم اختلاف کرنے والے کو زندہ درگو کر دینا چاہتے ہیں اور تنقید کرنے والے کو دشمن سمجھتے ہیں۔ اس کے خلاف سازشیں شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اکھڑ چکا ہے لوگ ہمیشہ اوپر والوں کو فالو کرتے ہیں۔ ہمارے کرتا دھرتاوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ماحول پیدا کریں۔ حال ہی میں عدلیہ کے نئے سربراہ نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں اور پہلے ہی دن انھوں نے فل کورٹ بنچ بنا کر عدالتی اختیارات کے حوالے سے پارلیمنٹ کی جانب سے بنائے جانے والے قانون کے بارے میں زیر التواءکیس کی سماعت کی۔ فیصلہ ابھی آنا ہے اس لیے اس بارے میں کسی رائے کا اظہار نہیں کیا جا سکتا لیکن ججز کے ریمارکس سے بہت ساری چیزیں واضح ہو رہی ہیں کہ چیف جسٹس صاحب کو اپنے گرد اختیارات جمع کرنے کا شوق نہیں وہ معاملات کو مشاورت کے ساتھ چلانا چاہ رہے ہیں۔ لیکن بحث یہ چل رہی ہے کہ پارلیمنٹ زیادہ سپریم ہے یا عدلیہ۔ سارے ادارے محترم ہیں سب کو اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر اعتدال کے ساتھ پرفارم کرنے کی ضرورت ہے۔
پارلیمنٹ بھی شتر بے مہار نہیں وہ کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو شریعت کے منافی ہو جس سے انسانی حقوق متاثر ہوتے ہوں جس سے معاشرے کی اخلاقی اقدار پر زد پڑتی ہو۔ اسی طرح عدلیہ میں بیٹھے جج صاحبان بھی قواعد وضوابط سے ہٹ کر من مرضی نہیں کر سکتے لیکن خرابیاں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب قانون سازی اور فیصلہ سازی کے پیچھے مقاصد کچھ اور کار فرما ہوتے ہیں۔ قوم کو نئے چیف جسٹس صاحب سے بہت ساری توقعات وابستہ ہیں۔ عام لوگوں کے ساتھ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ چیف جسٹس صاحب نے بڑا اچھا اقدام کیا انھوں نے اہم کیس کو پبلک کیا اس کی ساری کارروائی براہ راست نشر کی۔ اگر وہ عام آدمی کو عدالتی گھمن گھیریوں سے نکالنا چاہتے ہیں تو اس قوم پر ایک احسان کریں وہ تمام عدالتوں کی کارروائی قومی زبان میں کرنے کا اہتمام کر دیں۔ صورتحال یہ ہے کہ ہمارے 80 فیصد کیسز کا حقائق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا وکیل صاحبان اپنی مرضی سے کیس کا پلاٹ بناتے ہیں اپنی مرضی سے الجھنیں پیدا کرنے کے لیے خود ساختہ درخواستیں دیتے ہیں۔ سائل کو کچھ پتہ نہیں ہوتا اس کا کیس کیسے لڑا جا رہا ہے۔ عدالتی کارروائی کیا ہو رہی ہے۔ وہ وکالت نامے پر سائن کرکے اپنے ہاتھ کاٹ کر وکیل کو دے دیتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ خلع کے کیس نکال کر دیکھ لیں سب کیسز میں طے شدہ پیٹرن ہے کہ خاوند مار پیٹ کرتا ہے۔ شراب پیتا ہے، غیر فطری فعل پر مجبور کرتاہے، غیر مردوں کو گھر لاتا ہے۔ حالانکہ ہر عورت کے معاملات مختلف ہوتے ہیں۔
یہی حال دوسرے کیسز کا ہے۔ اگر عدالتی کارروائی اردو میں کر دی جائے اور جھوٹی درخواستوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے، جھوٹے مقدمات کرنے والوں کو سخت سزا وجرمانے کیے جائیں تو آدھا عدالتی بوجھ کم ہو جائے۔ پاکستان کی ترقی کے راستے میں انصاف کی عدم دستیابی رکاوٹ ہے۔ وقت دور حاضر کی سب سے قیمتی چیز ہے لیکن پاکستان میں کیسوں کے ذریعے پولیس کی کارروائیوں سرکاری اداروں کے تاخیری حربوں میں لاکھوں کروڑوں لوگوں کا وقت ضائع ہو رہا ہے۔ ہم تخلیقی کام کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو الجھانے کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہوتے ہیں۔ قوم کو اس عذاب سے نجات دلانے کی ضرورت ہے۔