قاضی کی عدل پسندی کے چرچے

بے نقاب  اورنگ زیب اعوان 
laghari768@gmail.com 
پاکستان کا عدالتی نظام انتہائی فرسودہ ہے. جس کی وجہ سے عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول ناممکن ہو چکا ہے. فرسودہ نظام کے ساتھ ساتھ ججز کی پسند و ناپسند بھی عدالتی رسوائی کا سبب بن رہی ہے. لوگ عدالتوں پر یقین کرنے کو ہرگز تیار نہیں. انہیں پتہ ہے. کہ عدالتوں نے انصاف کرنے میں اتنی تاخیر کر دینی ہے. کہ مقدمہ کا فیصلہ ہونے تک اس کا اصل مقصد ہی دفن ہو جانا ہے. ایک شہری اپنے بنیادی حقوق کی حق تلفی کے خلاف درخواست لیکر عدالتوں کا رخ کرتا ہے. جہاں بیس سال تک اس کی شنوائی ہوتی رہتی ہے. بسا اوقات تو درخواست گزار اس دنیا فانی سے کوچ کر جاتا ہے. اس کی زندگی کے دوران کیس کا فیصلہ نہیں سنایا جاتا.
 شاید یہ نظام عدل یا پھر ججز کی نااہلی ہوتی ہے. جو انصاف کی فراہمی میں سنجیدہ نہیں. عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ میں بیٹھے ہوئے ججز کا رویہ نوجوان وکلائ کے ساتھ انتہائی طنزیہ ہوتا ہے. سابق چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب داری نے اس ملک کو جتنا نقصان پہنچایا ہے. اس کا ازالہ کرنا ناممکن ہے. موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی ایک محب الوطن اور ایماندار انسان ہے. جن کے دل میں ملک پاکستان اور عام آدمی کے لیے محبت بھری ہے. انہوں نے اپنے منصب کا حلف لیتے ہی چند ایسے اقدامات لیے ہیں. جن کی بدولت ان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے ہیں. انہوں نے اپنی تقریب حلف برداری کے دوران اپنی اہلیہ کو بھی سٹیج پر بلا کر اپنے شانہ بشانہ کھڑا کیا. انہوں نے اس عمل سے یہ باور کروایا ہے . کہ اسلام نے عورت کو کس قدر عزت سے نوازتے ہے. دوسری طرف ان لوگوں کے لیے بھی خاموش پیغام تھا. جنہوں نے ان کے اہلیہ پر کرپشن کے الزامات عائد کیے تھے. انہیں الزامات کی روشنی میں صدر پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسی کو کام سے روک کر ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا تھا. کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کو کرپشن کی وجہ سے ان کے عہدہ سے ہٹا دیا جائے. اس دلیر اور بہادر انسان نے ان تمام الزامات کا جواں مردی سے مقابلہ کیا. اور الزامات کی سے باعزت سرخرو ہو کر بھی اذیت برداشت کی. مگر کبھی بھی کلمہ حق کہنے سے پیچھے نہیں ہٹا. بطور چیف جسٹس آف پاکستان پہلے ہی دن عدالتی تاریخ راقم کر دی.انہوں نے متنازعہ پریکٹس اینڈ پروسیچر ایکٹ کی سماعت کے لیے نہ صرف فل بیچ تشکیل دیا. بلکہ اس کی تمام کاروائی براہ راست نشر کرنے کی بھی اجازت دی
 اسی طرح کے ایک اور انقلابی اقدام کی دھوم ہر سو مچی ہوئی ہے. کہ تمام عدالتی فیصلہ جات کو انگلش کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی تحریر کیا جائے گا. 
 ان کے ان چند اقدامات نے ان کی عدل پسندی کے چرچے ہرسو بکھیر دیئے ہیں. اب عام آدمی کو قوی امید ہو چلی ہے. کہ ان کے لیےفوری اور سستے انصاف کا حصول یقینی ہو جائے گا. بطور قانون کا ادنی سا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے آج کی سپریم کورٹ کی براہ راست کاروائی دیکھ کر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا. مجھے قوی یقین ہے. کہ مجھ جیسے ہزاروں وکلائ جو ابھی تک سپریم کورٹ نہیں گئے. آج کی کاروائی دیکھ کر انہیں سپریم کورٹ آف پاکستان کی عدالتی کارروائی کا طریقہ کار اور موجودہ جسٹس صاحبان کی شکل دیکھنے کو ملی. ورنہ ہم لوگ ٹی وی سکرین اور اخبارات پر ان کے نام سے منسوب دلائل پڑھتے اور سنتے تھے. اس اچھے اور قابل تعریف اقدام کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے. عام آدمی کو بھی اس اقدام سے فائدہ ہو گا. وہ دیکھے گا. کہ ہماری عدلیہ کس طرح سے ملکی مسائل پر سنجیدگی سے گفتگو کرتی ہے. یہ عمل عام پاکستانی اور قانون کے طالب علم کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوگا. اس کے اثرات بہت دیرپا ہو گے. کیونک انتہائی اہم کیسز پر مختلف چہ میگوئیاں کی جاتیں ہیں. جن کا اب قلع قمع ہو گا. چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کی قانون پسندی کی وجہ سے عوام کی امیدیں ان سے زیادہ ہوگئیں ہیں. عوام کو قوی امید ہو گئی ہے. کہ اب انصاف اور عدل کا بول بالا ہو گا. کوئی جج ذاتی پسند یا تعلق کی وجہ سے کسی کی حق تلفی نہیں کر پائے گا. سابق چیف جسٹس اس ادارے اور اپنے لیے باعث شرمندگی تھے. وہ ہر قومی مسئلہ پر دو ججز کو ساتھ بیٹھا کر فیصلہ سازی کر دیتے تھے. جس کی وجہ سے ہر فیصلہ متنازع ہو جاتا تھا. چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کے ابتدائی اقدامات نے ان کے عزائم کو کھل کر بیان کر دیا ہے. وہ عدالت عظمی کی عظمت اور توقیر پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گے. کسی بھی ادارے کی نیک نامی کے لیے اس کے سربراہ کا ایماندار اور بہادر ہونا لازمی ہے. اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی میں یہ دونوں خوبیاں موجود ہیں. ان کی سربراہی میں اعلی عدلیہ سمیت نجی سطح پر بھی عدالتی نطام میں بہتری کی قوی امید ہے. چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کو اس معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے کے لیے انتھک محنت کرنا ہوگی. کیونکہ یہ برائیاں اپنی جڑیں بہت مضبوط کر چکی ہے. مافیاز اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں . ان کو نکیل ڈالنے کی ضرورت ہے. موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی نیک نامی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں. انہوں نے ان مافیاز کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے. ان کی طرف سے کی جانے والی کاوشوں کو دھچکا اس وقت لگتا تھا. جب سابق چیف جسٹس ان مافیاز کے سربراہان کو آرمی چیف کی عداوت کی وجہ سے چھوڑ دیتے تھے. اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی حالت زار پر رحم فرماتے ہوئے. اسے آرمی چیف کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان بھی انتہائی نیک، ایماندار اور فرشتہ صفت عطا کیا ہے. اب اس ملک کو ترقی کی منازل کرنے سے دنیا کی طاقت نہیں روک سکتی. چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں اس ملک سے برائیوں اور مافیاز کا صفایا ہوگا. ویسے تو ہر شعبہ زندگی میں مافیاز کی بھرمار ہے. مگر شعبہ وکالت میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے. اس شعبہ میں مافیاز نے ایسے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں. جو اس کو پھلنے پھولنے نہیں دیتے. قانون کی ڈگری تین سال میں مکمل ہوتی تھی. جس کو اب پانچ سالہ کر دیا گیا ہے. پہلے سالانہ فیس پچیس تیس ہزار روپے ہوتی تھی. اب ایک لاکھ سے ایک لاکھ پچیس ہزار تک کر دی گئی ہے. لاءکالجز کے سربراہان نے مل کر مکمل سازش سے ملک کے نامی گرامی وکلائ کو بھاری برقم فیسیں دے کر عدالت عظمیٰ سے اپنے حق میں فیصلے کروائے ہیں. ان ظالمانہ فیصلہ جات کی وجہ سے غریب طالب علم قانون کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتا. کیونکہ اس کے مالی وسائل اس بات کی اجازت نہیں دیتے. اس پر ایک اور ستم طرفی کہ جو پانچ سالہ ڈگری مکمل کرے گا. اسے ہائر ایجوکیشن کمیشن میں ایک ٹیسٹ لائ گیٹ دے کر یہ ثابت کرنا ہوگا. کہ اس نے واقع ہی میں قانون کی تعلیم مکمل کی ہے. 
کیا مذاق خیز بات ہے. کہ ایک طالب علم ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے منظور شدہ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرتا ہے. اگر کہی غلطی ہوئی ہے. تو ہائر ایجوکیشن کمیشن اس کا ذمہ دار ہے. اس نے ایسی یونیورسٹی کو قانون کی ڈگری کروانے کی اجازت ہی کیوں دی ہے. جس پر اسے اعتبار نہیں. یا پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن بھی اس مافیاز کے ساتھ ملا ہوا ہے. جو قانون کی ڈگری کو اپنی کمائی کا وسیلہ سمجھتا ہے. انہیں لاءکالجز نے پرائیویٹ اکیڈمیز بنا رکھی ہیں. جو پچاس ہزار فیس لیکر لاءگیٹ ٹیسٹ کی تیاری کرواتی ہیں. شاید یہ لوگ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ کو اس میں سے حصہ دیتے ہیں. چیف جسٹس آف پاکستان خدارا اس مسئلہ پر خصوصی توجہ مرکوز کرے. کیونکہ یہ آپ کے اپنے شعبہ سے وابستہ مسئلہ ہے. اس کو جتنی جلدی حل کرے گے. اتنی ہی تباہی کم ہو گی. ورنہ شعبہ وکالت میں وکیل نہیں. سرمایہ دار مافیا کے چمچے ہی رہ جائے گے . مطلب ان کے بیٹے، بھانجے اور بھتیجے . جب ایک طالب علم اپنی قانون کی ڈگری کامیابی سے مکمل کر لیتا ہے. تو اس سے لاءگیٹ ٹیسٹ لینا سراسر ظلم ہے. اللہ تعالیٰ آپ کو اس غم زدہ قوم کی حالت زار بدلنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین

ای پیپر دی نیشن