سردار شاہد احمد لغاری
ماحولیاتی تبدیلیوں نے” موسموں“ کی لذت سے آشنائی ختم کرنے کے ساتھ ساتھ تباہی کے ایسے تحفے دئیے ہیں کہ عقل انسانی دنگ رہ گئی ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت کے لئے دنیا سر جوڑے بیٹھی ہے مگر ترقی پذیر ممالک بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میںقدرتی آفات نے بنیادی ڈھانچہ کے ساتھ ساتھ قیمتی جانوں کا بھی نقصان کیا،فصلیں باغات اجاڑ کے رکھ دئیے،گرمی ہوئی تو شدید ہوئی سردی ہوئی تو ایسی کہ پلک جھپکتے ہی گزر گئی۔بارشیں رحمت گردانی جاتی تھیں مگر اب کہ یہ ایسی تباہی لا رہی ہیں کہ سنبھلنا مشکل ہوجاتا ہے۔کسی ایک علاقے کی آب و ہوا اُس کے کئی سالوں کے موسم کا اوسط ہوتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اس اوسط میں رونما ہونے والی ”تبدیلی “کو کہتے ہیں۔ زمین اب بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اور عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔گلوبل وارمنگ اور گرین ہا¶س اثر دونوں ہی ایسے عوامل ہیں جو آب و ہوا کی تبدیلی کو متاثر کرتے ہیں۔گرین ہا¶س گیسز میں اضافے کی ایک اور وجہ جنگلات کی کٹائی ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا کا درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے، اور لاکھوں زندگیوں اور ذریعہ معاش کو خطرہ لاحق ہے.2022 میں اوسط عالمی درجہ حرارت صنعتی انقلاب سے پہلے کے مقابلے میں 1.15 ڈگری سیلسیس زیادہ تھا۔ جیسے جیسے درجہ حرارت اس سطح سے بڑھتا ہے، متواتر اور شدید گرمی کی لہروں، سیلابوں اور خشک سالی، بارش کے انداز میں خلل اور سمندر کی سطح میں اضافہ سمیت دیگر اثرات سے، لوگوں، جنگلی حیات اور قدرتی نظاموں کو لاحق خطرات بڑھتے جاتے ہیں. موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والی گرین ہا¶س گیسوں کے تناسب کو کم کرنے کے لئے کئے گئے اقدامات کو موسمیاتی تبدیلیوں کی تخفیف کہا جاتا ہے۔ تخفیف کے اقدامات میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی کرکے اخراج کو کم کرنا، صنعتی سرگرمیوں سے ہونے والے اخراج کو کیپچر اور ذخیرہ کرنا، اور قدرتی کاربن سنک جیسے کہ جنگلات اور سمندری ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانا شامل ہے۔جنگلات کی کٹائی سے گرین ہا¶س گیسوں کی بڑی مقدار فضا میں خارج ہوتی ہے، یہ حیاتیاتی تنوع اور ہماری آب و ہوا دونوں کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔گزشتہ برس پاکستان میں بارشوںسے سیلاب امڈ آئے اور ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا۔ معیشت تباہ ہوکر رہ گئی،جانی مالی نقصان تاریخ رقم کر گیا۔ ہلال احمر پاکستان کی جانب سے 27 لاکھ متاثرہ گھرانوں کی مدد کی گئی اور بحالی کی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔اسی طرح رواں ماہ یعنی ستمبر کی شام کو مراکش میں زلزلہ تباہی مچا دیتا ہے۔ اس زلزلے کی شدت 6.8 ریکارڈ کی گئی اور مرکز مراکش شہر سے 75 کلومیٹر دور اطلس کا پہاڑی سلسلہ تھا اور اس کی زیر زمین گہرائی 18.5 کلو میٹر بتائی گئی ۔مراکش کے جنوبی علاقے اس زلزلے میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے، پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں موجود متعدد دیہات مکمل طور پر تباہ ہو چُکے ہیں۔ تباہ کن زلزلے میں ہلاک افراد کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ ہزاروں افراد زخمی اور سیکڑوں لاپتہ جب کہ ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں، بجلی اور مواصلات کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے جبکہ زلزلے سے متاثرہ افراد کھلے آسمان تلے عارضی پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اس زلزلے کو 1960کے بعد سے اب تک کا سب سے ہلاکت خیز زلزلہ کہا جا رہا ہے ۔ایسی ہی تباہی کا سامنا برادر ملک لیبیا کو بھی کرنا پڑا ہے جہاں بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں” درنہ“ شہر میں سب سے زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ دو ڈیم ٹوٹنے کی وجہ سے شہر کا ایک چوتھائی حصہ تباہ ہو ا ہے۔ اب تک11ہزار سے زیادہ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی جا چکی ہے جبکہ دس ہزار سے زیادہ لاپتہ ہیں، 30 ہزار سے زائد باشندے بے گھر ہوئے ہیں۔ ہلال احمر لیبیاکے ترجمان ”توفیق شکری“کے مطابق ساحلی شہر درنہ میں سونامی کی طرح کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے کئی روز بعدملبے تلے سے اور سمندر سے لاشیں نکالنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ریڈ کراس ریڈ کریسنٹ کے اہم ترین رکن ہلال ِاحمر پاکستان کی جانب سے مراکش میں آنے والے بدترین زلزلہ اور لیبیا میں سیلاب سے ہلاکتوں پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہلالِ احمر پاکستان مشکل کی اِس گھڑی میں برادر ممالک کے ساتھ کھڑا ہے، ہلالِ احمر پاکستان کی جانب سے تمام ممکنہ مدد فراہم کی جائے گی۔ دونوں ممالک کی ”ہلال احمر تنظیموں “کے ساتھ مکمل رابطے میں ہیں، ہم نے ریلیف اور متاثرین کی بحالی میں ہر ممکن تعاون فراہم کر نے کا عندیہ دے دیا ہے۔
ہلال احمر پاکستان زلزلہ اور سیلاب متاثرین کوریلیف اور ریکوری سے متعلق ہر ممکن مدد فراہم کرنے کو بھی تیار ہے۔ ریڈکراس ریڈکریسنٹ موومنٹ کے اہم رکن کی حیثیت سے ہلال احمر پاکستان اپنی ذمہ داری بطریق ِ احسن نبھائے گا۔ ہماری دعائیں مراکش عوام کے ساتھ ہیں،دونوں ممالک کے دُکھ اور درد میں برابر کے شریک ہیں۔ مراکش کے بادشاہ کی جانب سے زلزلہ متاثرہ افراد کیلئے امداد سے متعلق ہدایات کو سراہتے ہیں ۔ بنیادی ضروریات کی فراہمی کیلئے ہلالِ احمر پاکستان تیار ہے۔ انٹرنیشنل پارٹنرز سے مسلسل رابطے میں ہیں۔جونہی ہمیں موومنٹ پارٹنرز گرین سگنل دیں گے ۔ ہلال احمر کے پلیٹ فارم سے تکنیکی مدد اور امدادی سامان کی روانگی یقینی بنا دی جائے گی۔ ضروریات کا تعین کیا جارہا ہے تا کہ امدادی سامان بھیجا جا سکے۔لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ مشکلات کا شکار لوگوں میں ہیضہ، اسہال، پانی کی کمی اور غذائی قلت کے خطرات بہت بڑھ گئے ہیں۔ ان متاثرین کو صاف پانی، خوراک، رہائش اور بنیادی سامان کی اشد ضرورت ہے۔ خوش آئند بات ہے کہ بین الاقوامی امدادی کوششوں میں تیزی آ چکی ہے۔ لیبیا کے ساحلی شہر درنہ کے میئر کا کہنا ہے کہ ہلاک شدگان کی تعداد 20 ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے مطابق کم از کم 30 ہزار افراد بے گھر ہوئے ہیں۔لیبیا کو اس وقت جن شدید موسمی حالات کا سامنا ہے انھیں ماحولیاتی تبدیلی کا اثر سمجھا جاتا ہے اور ملک میں برف باری یا زلزلوں جیسے غیر معمولی قدرتی مظاہر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یقین مانیں،آب و ہوا کی تبدیلی نے ہمارے طرز زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے، پانی کی قلت پیدا ہوچکی ہے اور خوراک کی پیداوار میں بھی واضح کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سائنسدانوں نے درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے کو گلوبل وارمنگ کے لیے ”محفوظ“ حد مقرر کیا ہے۔دنیا کے مختلف ممالک سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ایسے اہداف اپنائیں جو ان کے گرین ہا¶س گیسز کے اخراج کو اس صدی کے وسط تک”صفر“تک لے جائیں۔امید یہ ہے کہ یہ درجہ حرارت میں تیزی سے ہونے والے اضافے کو روک کر موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک ترین اثرات پر قابو پالیا جائے گا۔موسمیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ کوئلہ، گیس، تیل کا استعمال ہے۔ ان سے نکلنے والا ایندھن ماحولیاتی آلودگی کا بھی سبب ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق تیل، گیس اور کوئلے کا استعمال جب سے شروع ہوا ہے تب سے دنیا تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوئی ہے۔ یہ ایندھن بجلی کے کارخانوں، ٹرانسپورٹ اور گھروں کو گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔اسکے علاوہ دن بدن زمین پر درختوں کا کٹاو جاری ہے جس سے گرین ہاوس گیسز کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ پانی کا بے تحاشہ استعمال، صنعتوں میں ماحول دشمن سرگرمیاں مثلاً ماحول کو آلودہ کرنے والی گیس اور آلودہ پانی جو کہ آلودگی کا بڑاسبب بھی ہے۔ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی شامل ہے۔اسی طرح ان فوسل فیولز کو جلانے سے گرین ہاوس گیسیں خارج ہوتی ہیں جو سورج کی توانائی کو متاثر کرتی ہیں۔ ماحول دشمن انسانی سرگرمیاں موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن رہی ہیں۔ہلال احمر پاکستان اس ضمن میں تین مراحل ( Meso,Micro and Macro Level)میں کام کر رہا ہے۔ عوام الناس میں آگاہی اولین ترجیح ہے ۔گرین آفسز کی جانب رضخ موڑنے کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے ہیں۔ سبز انقلاب کے لئے کاغذ اور بجلی کے کم سے کم استعمال کا شعور پھیلایا جا رہا ہے۔ عملہ اور رضاکاروں کے استعداد کار میں اضافہ اور سولر انرجی کے استعمال کا رجحان بڑھا ہے۔انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے تعاون سے موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت کا پروگرام (CACRA)کامیابی سے جاری ہے اور مختلف اداروں کے ساتھ اشتراک سے مثبت او رنتیجہ خیز سرگرمیاں جاری ہیں۔شجر کاری اور شجر پروری کو اہمیت دی جاتی ہے۔تھری آرزReduce,Reuse and Recycle جیسے سلوگن پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے عالمی ایام جیسے ارتھ ڈے،واٹر ڈے،گلوبل کلائمیٹ چینج ویک پر مختلف تقریبات کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔سکو ل،کالج اور جامعات کے طلبہ و طالبات کے مابین موضوعاتی مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ریڈیو میسج باقاعدگی سے نشر ہوتے ہیں۔ کمیونٹی کی سطح پرصفائی کی مہمات چلائی جاتی ہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزماءہونے کے لئے ہر فرد کو اپنے حصے کاکام کرنا ہو گا۔ان تبدیلیوں نے” موسموں“ کی لذت سے آشنائی ختم کر دی ہے۔ آئیے ان تبدیلیوں کے لئے طے کردہ اقدامات پر عملدرآمد کے لئے کمر بستہ ہو جائیں۔