کیپٹن اسفندیار '' شہد کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے '' 

عباس نامہ …عباس ملک
bureauofficeisb@gmail.com

ممتاز معالج ڈاکٹر فیاض حسین بخاری کے صاحبزادے فرزند اٹک کیپٹن اسفند یار بخاری کی نویں برسی 18 ستمبر بروز بدھ عقیدت و احترام سے منائی گی۔دن کا آغاز ضلع کی مساجد میں نماز فجر کے بعد قرآن خوانی اور دعا سے ہوا۔صبح ساڑھے دس بجے آرمی آفیسرز اور فوجی جوان اسفند یار شہید کے مزار پر حاضری اور عقیدت کی چادر چڑھائی۔ شہید کے والد ڈاکٹر فیاض بخاری نے بتایا کہ25 سالہ کیپٹن اسفندیار نے معرکہ بڈھ بیئر پشاورمیں دہشت گردوں کا مقابلہ کیا جنھوں نے جامع مسجد ایئرفورس کیمپ پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 18نمازی شہید ہوئے۔ کیپٹن اسفندیار پانچ دہشت گردوں کو واصل جہنم کرتے ہوئے وطن پر قربان ہو گئے۔ بدھ کی صبح خیابان اسفند یار سے ملحق آرکائیو میں شہید کیپٹن کے اعزازات ، انعامات ،سرٹیفیکیٹس اور ان کے زیر استعمال اشیاءکی نمائش ہوئی ، دن بھر محبان وطن قومی ہیروکے مرکز کا وزٹ کرتے رہے۔ باہمت والد ڈاکٹر فیاض بخاری کا کہنا تھا کہ قائد اعظم کا پاکستان وسائل سے بھرپور ہے۔دشمنان اسلام اور اینٹی پاکستان عناصر وطن عزیز کے امن کے در پر ہیں قوم اور پاک فوج ملکرسماج دشمن عناصر کا خاتمہ کریں گے، دشمن کبھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہونگے… کیپٹن اسفند یار بخاری چودہ اگست 1988ء کو اٹک شہر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اے پی ایس اٹک میں حاصل کی۔ جب وہ کلا س روم میں تھے تو کلاس میں بلیڈ لگنے سے آپ کی انگلی زخمی ہوگئی بچوں نے شور مچایا کہ اسفند کا خون نکل رہا ہے اسفند نے اس تکلیف کی حالت میں اپنی کاپی پر اپنے خون سے پاک لکھا اتنے میں میڈم زرینہ آگئیں اور انہوںنے ٹشو پیپر سے خون بند کرنے کے لیے اسفند کی انگلی پکڑلی اسفند نے اس درد کی حالت میں میڈم سے کہا کہ میڈم مجھے پاکستان تو پورا کرلینے دیتیں پھر اس نے 18 ستمبر 2015ءکو دہشت گردوں کے خلاف اپنے خون سے لفظ پاکستان پورا کیا۔ ان کی نہایت شاندار کاکرردگی پر ضلع کونسل اٹک میں اپریل 2006ءمیں اٹک فیسٹیول میں انہیں فخر اٹک کے باضابطہ خطاب نسے نواز گیا اور ان کی تصویر اٹک کی لائبریری میں آوایزاں کر دی گئی تاکہ ضلع اٹک کے طلبہ میں جذبہ مسابقت نمو پائے بے شک یہ کسی سترہ سالہ طالب علم کے لیے بہت ہی عزت وتوقیر کی بات تھی اسفند نے ایف ایس سی اعلی نمبروں میں کی تو تمام گھر والوں کا خیال تھا کہ اسفند میڈیکل کالج جائن کر ے گا مگر اسفند یار بخاری نے پاکستان آرمی میں جانے کا اٹل فیصلہ کیا ان مشکل حالات میں میں دفا ع وطن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہوں پھروہ میڈیکل چھوڑ کر پی ایم اے کاکول چلے گئے۔ان کا عسکری کیرئیر مختصر مگر تابناک رہا نومبر 2006 میں پی ایم اے کاکول کو جائن کیا بے مثال کارکردگی پر تھرڈ ٹرم میں کارپورل اور فورتھ ٹرم میں بٹالین سینئر انڈر آفیسر بنا دئیے گئے اسی دوران میں انہوں نے پیراگلائیڈنگ اور پیرا شوٹنگ کے کورسز بھی کئے آپ کو ٹرم کمانڈر میجر صفر خان نے اعلی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر جنرل رومیل کا خطاب دیا۔18 اکتوبر 2008 کو ملٹری سبجیکٹ میں پی ایم اے کاکول کو ٹاپ کرنے پر غیر معمولی میڈل ملا۔ 25 اکتوبر 2008ءکو پاکستان ملٹری اکیڈمی کے سب سے بڑے اعزاز سے سرفراز ہوئے پھر ان نے بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ 11-FF (فرسٹ پٹھان) جائن کی اور بہاولپور چلے گئے 2009 ءمیں آپ ایک جنگی مشق بالصمصام 3 کے سلسلے میں سعودی عرب گئے انکی بہترین کارکردگی پر گورنمنٹ آف سعودی عریبیہ نے ان کو گولڈ میڈل سے نوازا 2010 ء میں انہوں نے لیفٹیننٹ ٹو کیپٹن امتحان میں پاک آرمی میں اول پوزیشن حاصل کی 2011 ءمیں کوئٹہ میں انفنٹری کورس کے لیے گئے وہاں آپنے پاک آرمی کے لیے ایک عسکری آلہ اتجاد کرکے واہ فیکٹری بھجوایا۔اے پی ایس کے سانحہ کے بعد سے وہ کافی مضطرب تھے اکثر کہا کرتے کہ مجھے آرمی پبلک کے معصوم بچے سونے نہیں دیتے وہ مجھے سے پوچھتے ہیں کہ وہم پر کس جرم کی پاداش میں حملہ ہوا پھر کہتے کہ اللہ نے مجھے موقع دیا تو میں آرمی پبلک سکول کا بدلہ ضرور لوں گا۔18 ستمبر 2015ء بروز جمعہ بڈھ بیر ائیر فورس کیمپ پشاور پر بزدل دہشت گردوں نے حملہ کیا اور مسجد میں 18 نمازیوں کو شہید کر دیا جب کیپٹن اسفند یار وہاں پہنچے تو 28 لوگ شہید اور 29 زخمی ہو چکے تھے آرمی کمانڈر میجر حسیب زخمی ہو کر سی ایم ایچ جاچکے تھے کیپٹن اسفند یار نے شدید فائرنگ میں خود جاکر ریکی کی اور صورت حال کو جانچا QRF کی کارروائی کو منظم کیا اور رضا کارانہ طورپر خود کو کمانڈ کے لیے پیش کر دیا جبکہ یہ ان کی ڈیوٹی نہ تھی پھر 12 پنجاب اور 15 بلوچ کے جوانوں کی قیادت سنبھالی آپ کے شجاعت اور لیری دیکھ کر دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوگئے آج ان کی خودکش جیکٹیں بھی نہیں پھٹ رہی تھیں اوراپنی جان بچاتے پھر رہے تھے روم کلیئرنس کے دوران آخری دہشت گرد کو موت کی راہ دکھائی مگر اس سک چلائی ہوئی گولی ان کے سینے پر بائیں جانب لگی اور یوں وہ اللہ کی راہ میں بڑی بے جگری سے لڑتے ہوئے اپنے وطن عزیز پر قربان ہوگئی بے شک ''شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے '' شہید کے جسدخاکی کو 32 گھنٹے کے بعد سی ایم ایچ سے ان کے گھر لایا گیا تو پورا ٹک شہر شہید کے دیدار کو امڈ آیا جب چہرے سے کپڑا ہٹایا گیا تو سبحان للہ چہرے پر دلفریب فاتحانہ مسکراہٹ تھی اور خون رواں تھا جو رکنے کا نام نہ لے رہا تھا پاک آرمی اور اٹک شہر کے سینکڑوں مردوزن اس کے چشم دید گواہ ہیں ان کا جنازہ اٹک کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا اس دن پورا اٹک شہر بند تھا آخری مرتبہ بریگیڈئیر کامران نے شہید کے بہتے ہوئے خون کو پونچھا اور پھر انہیں سپرد خاک کر دیا گیا اے پاکستان آرمی کے سچے شہید تجھے پوری قوم کا سلام
لگانے آگ جو آئے تھے آشیانے کو
وہ شعلے اپنے لہو سے بجھا دیے تم نے

ای پیپر دی نیشن