زندگی میں ڈرامہ اور ڈرامہ ہے زندگی!

ڈاکٹرعارفہ صبح خان             
تجا ہلِ عا رفانہ     
پاکستان میں تیرہ کروڑ عورتیں اور بارہ کروڑ مرد ہیں۔ ان میں سے دس کروڑ عورتیں با قا عدگی سے ڈرامہ دیکھتی ہیں جبکہ تیرہ کروڑ عورتوں میں سے بارہ کروڑ عورتیں خود بڑا ڈرامہ ہوتی ہیں اور زندگی بھر ایسے ایسے ڈرامے کرتی ہیں کہ مردوں کو پتہ چل جائے تو شاید آدھے مرد خود کشی کر کے مر جائیں۔ یہ کالم حقا ئق پر مبنی ہے اور اس کا اصل مقصد اصلاح ہے۔ اگر کسی کے حالاتِ زندگی میری باتوں سے مطابقت رکھیں تو بظاہر یہ ایک اتفاق ہو گالیکن اس اتفاق پر سنجیدگی سے غو ر ضرور کیجئے گا اور جن اندھیروں یا گمراہیوں میں آپ مبتلا ہو کر ظلم زیادتی اور گناہ کے مرتکب ہو کر اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں۔ ہو سکے تو اُن سے تائب ہو جائیے گا کیونکہ اگرآپکی عمر تیس سال ہے تو آگے زیادہ سے زیادہ آپ تیس چالیس سال کے مہمان ہیں مگر آخرت ہمیشگی کے لیے ہے۔ حق ہے کہ زندگی ایک ڈرامہ ہے کبھی یہ میلو ڈرامہ ، کبھی کامیڈی اور کبھی ٹریجڈی ڈرامہ۔ ویسے زیادہ آسان مکِس ڈرامہ ہو تا ہے۔ ہماری زندگی کے ڈرامے کا مرکزی کردار ماں ہو تی ہے۔ ہمارے ہاں ماں کو بہت مقدس، محترم، نیک پاک دکھایا جاتا ہے لیکن اسی ماں کو جب آپ بہو، نند، بھاوج، جیٹھانی دیوارنی، بھابھی، ساس ، سمدھن، پڑوسن کے روپ میں دیکھیں تو یہ یہی عورت جو آپکو ماں کے گیٹ اپ میں فرشتہ لگتی ہے۔ یہی عورت ایک ڈریکولا کا روپ دھار لیتی ہے۔ بہن کی شکل میں بھائیوں کو تگنی کا ناچ نچا تی ہے اور بھائیوں کا حصہ ہڑپ کر جاتی ہے۔ بیٹی کی شکل میں باپ کو نخرے دکھاتی اور جہیز کے نام پر خوب مال پانی لے جاتی ہے۔ جب بہو بنتی ہے تو بوڑھی ساس کو تگنی کا ناچ نچاتی ہے۔ ساری زندگی ساس اور نندوں کو کو لہو کے بیل کی طرح پیلے رکھتی ہے لیکن پکی پکائی ہنڈیا میں چمچ چلا کر پورے گھر کو یہ جتلاتی ہے کہ میں نے سارا کھانا بنایا ہے۔ نندوں سے سارا دن کام کرواتی ہے پھر بھی بھائی کی نظروں میں انھیں بُرا بناتی ہے۔ یہی ماں اپنی جٹھانی دیوارنیوں کو رات دن تلتی ہے۔ اٹھتے بیٹھتے لڑتی ہے۔ اگر جٹھانی خو بصورت ہے تو اُسکا جینا مرنا حرام کر دیتی ہے۔ اپنی بھابھیوں سے اپنی اور اپنے بچوں کی خدمت کراتی ہے ۔ وہ ذرا سا چوں چراں کریں تو ماں اور بھائیوں کو شکایتیں کر کے اُنکی زندگی عذاب بنا دیتی ہے۔ اپنی بہنوںکو بھی دبا کر رکھتی ہے۔ پڑوسیوں اور سہیلیوں سے بھی حسد کرتی ہے۔ سمدھنوں کو تنگ کرتی اور ستاتی ہے۔ بات بات پر طعنے مارتی ہے۔ بیوی کی شکل میں ایک ڈکٹیٹر بن جاتی ہے۔ یہی ماں جب ساس بنتی ہے تو بہوﺅں پر ظلم ڈھاتی ہے۔ بیٹوں کے ہر وقت کان بھرتی ہے۔ بہو کی زندگی میں زہر گھول دیتی ہے۔ اگر غورکریں تو یہ ماں بہت بڑی بلیک میلر ہو تی ہے۔ ہر وقت بچو ں کو بلیک میل کرتی ہے کہ میں نے تجھے دو سال دودھ پلایا ہے۔ میں تجھے دودھ نہیں بخشوں گی۔ اب کو ئی پو چھے کہ بچہ نے کب کہا تھا کہ مجھے اپنا دودھ پلاﺅ۔ ماں اُسے گائے بھینس بکری یا میجی بے بی ملِک بھی تو پلا سکتی تھی۔کبھی کسی گائے بھینس بکر ی یا بلی نے تو دعویٰ نہیں کیا کہ بچوں تم میرے اشاروں پر ناچو، میری خدمت کرو۔ اپنے بیوی بچوں کو منہ نہ لگاﺅ۔ اپنی بیوی سے بد اخلاقی کر و اور اُسکے حقوق ادا نہ کروورنہ اپنا دودھ نہیں بخشوں گی۔ گائے بھینس بکری بلی تو بیک وقت کئی بچے پیدا کر کے سب کو دودھ پلاتی ہےں مگر وہ بلیک میلنگ نہیں کرتیں۔ ہماری زندگیوں میں یہ کردار بہت بڑا ڈرامہ ہے جو ہنستے بستے جوڑوں میں بد گمانیاں اور دُوریاں پیدا کر تا ہے۔ اسی لئیے پنچابی کی ایک بڑی مشہور کہاوت ہے کہ، ”جب میں بہو بنی تو ساس بُری تھی اور جب میں ساس بنی تو بہو بُری ملی“۔ حال ہی میں ٹی وی پر ایک بڑی مشہور ڈرامہ سیریل ”نور جہاں“ چلی جس نے ناظرین کی توجہ حاصل کی ۔ یہ ڈرامہ سیریل ہر لڑکے اور لڑکی کو دیکھنی چا ہیے۔ اِس میں ایک حقیقی ڈکٹیٹرساس کا کردار دکھایا ہے جو اِس بات پر حد سے زیادہ غرور کرتی ہے کہ اُس کے تین بیٹے ہیں جس کی وجہ سے وہ خود کو طاقتور سمجھتی ہے۔ تینوں بیٹے صحتمند توانا اورپڑھے لکھے ہیںلیکن ماں انھیں دبا کر رکھتی ہے۔ تینوں بیٹے اپنی ماں کے انڈر رہتے ہیں۔ ماں ہر وقت اُنکے دما غ میں یہ ڈا لتی ہے کہ اپنی بیویوں کو غلام سمجھو، انھیں زیادہ منہ نہ لگاﺅ۔ اپنی بیویوں سے کہو کہ صرف بیٹا پیدا کریں۔ بڑا بیٹا ماں کا حد سے زیادہ تا بعدار اور امیر ہو تا ہے۔ اگر چہ بھائیوں میں زیادہ طاقتور ہوتا ہے لیکن ماں اُسے اپنے اسقدر قا بو میں رکھتی ہے کہ چار سال یہ لڑکا اپنی بیوی کے حقوق سلب رکھتا ہے۔ جب بیوی امید سے ہوتی ہے تو یہ لڑکا اور اسکی ماں اُس لڑکی کو اتنا پریشرائز کرتے ہیں کہ جب وہ الٹرا ساﺅنڈ کرانے جاتی ہے تو شدید خوف میں مُبتلا ہو تی ہے۔ رپورٹ میں بیٹی آتی ہے جس پر شوہر اور ساس دونوں ناراض ہو تے ہیں۔ اُسے اتنا بُرا بھلا کہتے ہیں کہ اُسکا ابارشن ہو جاتا ہے۔ دوسری مرتبہ جب بڑی بہو امید سے ہو تی ہے تو شوہر اور ساس لڑکی پر پھر پریشر ڈا لتے ہیں۔ دوسری مرتبہ بھی رپورٹ میں بیٹی آتی ہے۔ لیڈی ڈا کٹر سمجھاتی ہے کہ لڑکا یا لڑکی کا انحصار مرد کے کروموسمز پر ہوتا ہے۔ مرد کے x یا yکروموسومز بچے کی جنس کا تعین کرتے ہیں۔ لڑکے کو بات سمجھ آجاتی ہے لیکن اُسکی ماں بہو پر غصبناک ہو جاتی ہے۔ اس دوران دوسرا بیٹا جس نے چوری سے لو میرج کی لی تھی۔ ماں اُس لو میرج کو نہیں مانتی اور بیٹے کی دوسری شادی کر دیتی ہے مگر تبھی پتہ چلتا ہے کہ بیٹے کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے تب یہ عورت جا کر بہو اور پوتے کو گھر لے آتی ہے اور اپنے پوتے کے ناز نخرے اٹھاتی ہے۔ بڑی بہو اور تیسری بہو سے سارا دن گھر کے کام و کاج کرواتی ہے۔ جب بڑے بیٹے کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو دیکھتی تک نہیں۔ بڑا بیٹا بھی اپنی بیٹی کو نہیں دیکھتا لیکن جلد ہی اُسکا دل بیٹی کے لیئے موم ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی ماں کی بدسلوکیاں اور نا انصافیاں دیکھ کر بالٓاخر ماں سے بد ظن ہو جاتا ہے اور معصوم بیٹی کی حق تلفی پر ایکدن ماں کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ حقا ئق پر وہ اپنی ماں سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ ماں اپنے بیٹوں پر حق جتاتی اور اتراتی ہے۔ اپنی بہوں کو نوکروں کی طرح کاموں پر لگا ئے رکھتی ہے۔ آخر کار باقی دونوں بیٹے بھی ماں کی حرکتوں سے تنگ آکر اُسے چھوڑ جاتے ہیں۔ چند سال بیٹوں کو ماں کی چکنی چیڑی باتوں سے اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ بہوﺅں کے ساتھ کتنی چا لاکی اور مکاری سے زیادتی کرتی ہے۔ آخر میں تنہا ئیوں کے عذاب سے تنگ آکر یہ بیٹوں اور بہوﺅں سے معافی مانگ کر بتا تی ہے کہ اُس کا تعلق ایک چھوٹے خاندان سے تھا۔ ایک جاگیردار کا اُس پر دل آ گیا اور اُس نے شادی کر لی لیکن جاگیردار کی فیملی نے اُسے قبول نہیں کیا۔ شادی کے پانچ سال بعد شوہر مر گیا۔ اس عورت کی فطرت میں بدلہ اور انتقام تھا لہذا اُس نے شوہر کی زمینیں بیچ کر کاروبار کیا۔ دولت پانے کے بعد یہ اور ظالم ہو گئی۔ اُسے بہو کی حثیت سے کوئی عزت مقام نہیں ملا تھا۔ اس لیے اس نے اپنی چاروںبہوﺅں کو عزت اور چین سکون سے جینے نہیں دیا۔ اس ڈرامے اور حقیقی زندگی میں بے شمار عورتیں جن کا تعلق چھوٹے گھرانوں سے ہوتا ہے۔ جنھوں نے روپیہ پیسہ، عزت خوشی، تعلیم حا صل نہیں کی ہوتی۔ وہ اپنی محرومیوں کا بدلہ اپنی معصوم بہوﺅں سے لیتی ہیں اور انتقام کی انتہاﺅں پر پہنچ جاتی ہیں۔ بہو اپنا گھر بچانے کی خا طر سب کچھ برداشت کرتی رہتی ہیں لہذا سمجھنے کے لیے آخری بات یہ ہے کہ لڑکوں کو اپنی بند عقل کا ڈکھن کُھولنا چا ہیے کہ جس ماں کو وہ مقدس سمجھ کر پاگلوں کی طرح اُس کی پرستش کر رہے ہیں۔ کیا اُس ماں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ بیٹا تو ماں پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتا ہے۔ اُسکے اشاروں پر ناچ کر اپنی عا قبت خراب کرتا ہے۔ تو اُس کی ماں اُس کی زندگی میں ٹینشن فرسٹریشن ڈیپریشن اور زہر گھول رہی ہے۔ جس ماں کو اپنے بیٹے سے محبت ہوتی ہے، وہ کبھی اپنے بیٹے کا گھر خراب نہیں کرتی لیکن خو د غرض، چالاک اور منتقم المزاج ماں بیٹے کے گھر میں ہر وقت جھگڑے فساد کرا کے خوش ہو تی ہے بلکہ میاں بیوں میں شدید نفرتیں ڈا ل دیتی ہے تو کیا ایسی بد بخت ماں مقدس کہلانے کے قا بل ہے؟؟؟

ای پیپر دی نیشن