ارتقاءنامہ…سیّد ارتقاءاحمد زیدی
irtiqa.z@gmail.com
8 اگست کو 84سالہ ڈاکٹر محمد یونس نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر بحیثیت چیف ایڈوائزر حلف اٹھایا۔ وہ شروع سے ہی پاکستان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے حسینہ واجد نے پاکستان دشمنی سے مغلوب ہو کر ان کے خلاف غبن کا جھوٹا مقدمہ بنایا اور انہیں ملک چھوڑنا پڑا۔ وہ امریکہ چلے گئے۔ڈاکٹر یونس دنیا کے وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے امن نوبل پرائز (2006) امریکہ کے صدارتی میڈل (2009) اور امریکہ کے (2010) Congressional Gold Medal کے علاوہ 27 ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کئے۔انہیں امن کا نوبل پرائز گرامین بینک کے بانی کی حیثیت سے دیاگیا۔ گرامین بینک کے قیام کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ ڈاکٹر یونس ذاتی طور پر بہت رحم دل اور خدا ترس انسان ہیں۔ 1974ئ میں بنگلہ دیش میں قحط کی وجہ سے 27,000 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ انہوں نے اپنی جیب سے 27 امریکی ڈالر کے برابر رقم غریب خاندانوں میں بطور قرض دی تاکہ وہ قحط کی تباہ کاریوں کے بعد نئے سرے سے اپنے کاروبار کا آغاز کر سکیں۔ انہوں نے یہ قرض بغیر کسی ضمانت کے اور بلا سود دیا اور آسان قسطوں میں واپسی طے پائی۔ یہ تجربہ انتہائی کامیاب رہا۔99 فیصد لوگوں نے قرض واپس کر دیا اور اس طرح مزید قرض دینے کے لئے ڈاکٹر یونس نے وسیع پیمانہ پر انتظامات کئے اور اپنے قابل اعتماد لوگوں کے ذریعے کامیابی سے یہ سلسلہ جاری رکھا۔ 1976ئ میں انہوں نے ایک پروجیکٹ بنایا جس میں بنگلہ دیش بینک کے تعاون سے قرضوں کی رقم میں اضافہ کر دیا اور آہستہ آہستہ اس پروجیکٹ کا دائرہ وسیع کردیا۔ 2 اکتوبر 1983ءکو انہوں نے پروجیکٹ کو گرامین بینک میں تبدیل کر دیا۔ گرامین بنگالی زبان میں دیہات کو کہتے ہیں۔ چونکہ انہوں نے قرض دینے کا سلسلہ دیہات سے شروع کیا تھا اس لئے بینک کا نام گرامین بینک ( Bank Grameen) رکھا۔یہ ایک ایسا بینک تھا جہاں قرض لینے والوں کو بینک نہیں آنا پڑتا تھا بلکہ بینک کا عملہ خود ضرورت مندوں کے گھر جا کر قرضہ دیتا تھا اور واپسی کی قسط بھی وصول کرتا تھا۔قرضہ لینے والوں کی اکثریت خواتین کی ہوتی تھی۔ آہستہ آہستہ یہ تعداد بڑھ کر 98 فیصد ہوگئی اور گرامین بینک خواتین کے بینک کے طور پر جانا جانے لگے۔گرامین بینک کی کامیابی کی کہانیاں پوری دنیا میں پھیل گئیں۔ امریکہ کے شہر شکاگو میں واقع ایک کمیونٹی ڈویلپمنٹ بینک نے فورڈ فاﺅنڈیشن کے تعاون سے گرامین بینک کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کیا اور گرامین بینک تیزی سے ترقی کرنے لگا۔ 2005ءمیں گرامین بینک نے 4.7 ارب امریکی ڈالر کے برابر قرضے دیئے اور قرضے دینے کا یہ حجم بتدریج بڑھتے بڑھتے 2008ءمیں 7.6 ارب امریکی ڈالر ہوگیا۔گرامین بینک کے کامیاب تجربے سے بے شمار ملکوں نے فائدہ اٹھایا۔ جن میں یہ نہ صرف ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ گرامین بینک کے تجربہ سے پاکستان نے بھی فائد ہ اٹھایا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے 1985ء میں اَخوّت کے نام سے بلا سود قرضے دینے شروع کئے۔ بعد میں 2001ءمیں اَخوت کا دائرہ کار بڑھا کر اَخوّت فاﺅنڈیشن کے نام سے یہ کام جاری رکھا۔ اس وقت ماشاءاللہ اس کی ملک بھر میں 800 برانچیں 400 شہروں میں موجود ہیں جو 5 لاکھ تک قرض فراہم کر رہی ہیں۔ جو 13 سے 60 ماہ کی اقساط میںواجب الادا ہوتا ہے۔بنگلہ دیشی عوام خوش نصیب ہیں۔ جنہیں ڈاکٹر یونس جیسا اعلیٰ تعلیم یافتہ سربراہ میسر آگیا ہے۔ ڈاکٹر محمد یونس نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کیا۔ امریکہ کی ریاست ٹینسیی Tennessee کے شہر نیشول Nashville میں واقع ونڈر بلٹ Vanderbilt یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔ ونڈر بلٹ یونیورسٹی کا امریکہ کی 439 یونیورسٹیوں میں 18 واں نمبر ہے۔
حسینہ واجد آج کل ہندوستان میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ وہ وہاں بیٹھ کر ہندوستان کی مدد سے آئندہ ہونے والے انتخابات میں عوامی لیگ کی فتح کے لئے بھرپور کوشش کرے گی۔ اِدھر انڈیا بھی بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے خلاف جنگ آزادی کو اتنی آسانی سے نہیں بھلا سکے گا اور اس کی بھی کوشش یہی ہوگی کہ عوامی لیگ اقتدار میں دوبارہ آجائے۔ کیونکہ انڈیا کو بنگلہ دیش میں اپنا سرمایہ ڈوبتا ہوا نظر آرہا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق عوامی لیگ کے انتخابات جیتنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ میری بنگلہ دیش میں دوستوں سے بات ہوتی رہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں پاکستان کے حمایتوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور امکان اس بات کا ہے کہ جماعت اسلامی دوسری مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر انتخابات میں کافی تعداد میں سیٹیں حاصل کرلے گی۔ اگر وہ حکومت بنانے میں کامیاب نہ بھی ہو سکی تو ایک مضبوط حذبِ اختلاف کا کردار ادا کرے گی۔ ان کا خیال ہے کہ عوامی لیگ کے اقتدار کا سورج اَب ہمیشہ کے لئے ڈوب چکا ہے۔بنگلہ دیشوں کی پاکستان سے محبت کی جھلک چند واقعات سے نمایاں ہوتی ہے۔ 14 اگست کو بنگلہ دیش میں پاکستان کے پرچم گھروں پر لہرائے گئے۔ عوامی لیگ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ان میں سے زیادہ تر کا تعلق بہار سے ہے۔ جنہوں نے ابھی تک بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا اور اَب بھی اپنے آپ کو پاکستانی کہلاتے ہیں۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عبوری حکومت نے ایک تقریب میں جو 13 ستمبر کو ڈھاکہ میں قائد اعظم محمد علی جناح کے 76 واں یوم وصال کے موقع پر منعقد کی گئی، پاکستان کے سفیر سیّد احمد معروف کو بطور مہمان ِ خصوصی کو مدعو کیا گیا۔پچھلے ہفتہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر شاہد الزّمان نے آرمی آفیسرز سے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے خلاف بنگلہ دیش کو تحفظ درکار ہے۔ اس لئے اسے پاکستان سے جو ایک جوہری طاقت ہے ایک دفاعی معاہدہ کرنا چاہیئے تاکہ ہندوستان کو معلوم ہو جائے کہ بنگلہ دیش تنہا نہیں ہے اور پاکستان کسی صورت بنگلہ دیش پر انڈیا کی طرف سے جارحیت کو برداشت نہیں کرے گا۔ ڈاکٹر شاہد الزّمان کی اس تجویز کی حمایت تقریب کے شرکائ نے بھرپور تالیوں سے کی۔میرے خیال میں اس بات کا بہت خدشہ ہے کہ ہندوستان بنگلہ دیش میں ہونے والے عام انتخابات میں اثر انداز ہونے کی پوری کوشش کرے گا۔ جس کی وجہ سے بنگلہ دیش سے اس کے تعلقات کشیدہ ہو جائیں گے اور شاید سرحدی جھڑپوں کی نوبت آجائے۔ اس لئے حکومت ِ پاکستان کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر یونس کو سفارتی سطح پر یہ یقین دہانی کرا دینی چاہیئے کہ پاکستان ، ہندوستان کے مقابلہ میں بنگلہ دیش کی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لئے بحری اور فضائی تعاون کے لئے تیار ہے۔ پاکستان بنگلہ دیش کی بحری طاقت میں اضافے کے لئے نئے جنگی بحری جہازوں کی تیاری میں مدد کر سکتا ہے۔ اسی طرح فضائی افواج کو تربیت دے سکتا ہے اور لڑاکا جنگی جہازوں کی تیاری میں مدد کے علاوہ نئے جہاز بھی فراہم کر سکتا ہے۔ دوسرا بڑا شعبہ جس میں پاکستان بنگلہ دیش کی مدد کر سکتا ہے وہ تجارت ہے۔2022ء میں انڈیا نے بنگلہ دیش کو 13.8 ارب امریکی ڈالرکی برآمدات کیں۔ یہ برآمدات پچھلے 5 سال میں14 فیصد کی شرح سے بڑھی ہیں۔ جبکہ پاکستان نے بنگلہ دیش کو 2022ء میں صرف 839 ملین ڈالر کی برآمدات کی ہیں۔ پچھلے 5 سالوں میں یہ برآمدات صرف 5.35 فیصد کے حساب سے بڑھی ہیں۔ بنگلہ دیش کے عوام کے جذبات ہندوستان کے خلاف اور پاکستان کی حمایت میں ہونے کی وجہ سے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ہندوستان کی بنگلہ دیش کو برآمدات میں کمی آئے گی اور پاکستان کی بنگلہ دیش کو برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ حکومت ِ پاکستان کو چاہیئے کہ ایک اعلیٰ تجارتی وفد بنگلہ دیش بھیجے جس میں وزارت تجارت کے متعلقہ افسران کے علاوہ وزارت دفاع کے اعلیٰ افسران بھی شامل ہوں تاکہ بنگلہ دیش سے تجارتی اور دفاعی معاہدوں پر گفت و شنید کی جائے۔ایک اور وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ بنگلہ دیش سے آزاد تجارت کا معاہدہ کیا جائے۔ میں نے 2005ءمیں جب میں وزارت تجارت میں جوائنٹ سیکرٹری تھا۔ سیکرٹری تجارت کی ہدایت پر اپنے پروجیکٹ منیجر کے ساتھ بنگلہ دیش کا ایک ہفتہ کا دورہ کیا۔ اس دورے کا مقصد اس بات کا جائزہ لینا تھا کہ کیا بنگلہ دیش کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ ممکن ہے ؟اور کیاایسا کرنے سے دونوں ملکوں کے تجارتی حجم میں اضافہ ہوگا اور پاکستان بنگلہ دیش کا تجارتی توازن پاکستان کے حق میں ہوگا؟ اس دورے میں ہم نے بنگلہ دیش کے وزارت تجارت کے اعلیٰ حکام اور نجی شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد سے میٹنگز کرنے کے بعد جولائی 2005ءمیں وزارت تجارت کو ایک رپورٹ پیش کی کہ بنگلہ دیش سے آزاد تجارتی معاہدہ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کے مفاد میں ہے اور ایسا کرنے سے پاکستان کی بنگلہ دیش کو برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا کیونکہ بنگلہ دیش یہ اشیاء اس وقت انڈیا سے درآمد کر رہا ہے۔ اِس رپورٹ کی روشنی میں معاہدے کے بار ے میں زیادہ پیش رفت نہ ہو سکی کیونکہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان سیاسی کشیدگی میں کمی نہ آسکی۔ اس وقت بنگلہ دیش سے آزاد تجارتی معاہدہ کرنے کے لئے حالات بہت سازگار ہیں۔ ان سے ضرور فائدہ حاصل کرنا چاہیئے۔