آئین پاکستان 

جاوید انتظار 
سال 1999 کی بات ہے۔ تب میں پاکستان تحریک انصاف فیڈرل کیپٹل اسلام آباد کا جنرل سیکرٹری تھا۔ بانیان پی ٹی آئی میں ہونے کے حوالے سے کئی عوامی اجتماعات میں عمران خان کے ساتھ شریک ہوا اور خطابات کئے۔ اسلام آباد میں ایک عوامی اجتماع میں عمران خان سے پہلے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چور دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ عام چور ہوتا ہے۔ جو چوری کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے۔ یا چوری کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ دوسرا ذہین چور ہوتا جو چوری بعد میں کرتا ہے واپسی کا راستہ پہلے تلاش کر لیتا ہے۔وہ پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم سے اپنی چوری کو تحفظ دیتا ہے۔اس بات کو عمران خان نے بہت سراہا۔ 15 ستمبر 2024 بروز اتوار پارلیمنٹ میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے لئے مجوزہ ترمیم کا بل پاس کروانے کی مزموم کوشش کی گئی۔ حکومت نے ایک سنجیدہ آئینی ترمیم کے لئے انتہائی غیر سنجیدہ مبہم اور خفیہ طریقہ کار اختیار کیا۔ جس کے بارے میں وفاقی وزراءکو بھی بے خبر رکھا گیا۔ آئینی ترمیم کے پس منظر میں ہائیکورٹ کے ججز کا خط بڑا محرک تھا۔ آئینی ترمیم کے لئے اسٹیک ہولڈرز کو بھی بے خبر رکھا گیا۔نہ کسی رکن پارلیمنٹ نہ اپوزیشن ، نہ وکلاءبرادری نہ عوام نہ میڈیا اور نہ ہی اپوزیشن اور اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیا گیا۔ ایسا طرز عمل آئین پاکستان پر حملہ ہی تصور کیا جاسکتا ہے۔ اس حملے کے محرکات سیاسی ہیں۔ حکومت پر جعلی مینڈیٹ کا خبط سوار ہے۔ دوسرا سپریم کورٹ کی موجودگی میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام عدلیہ کو آدھا تیتر آدھا بٹیر بنانے کے علاوہ کچھ نہیں۔ آئینی ترمیم کی شقوں میں سیریم کورٹ کے ذیلی کورٹس پر کنٹرول کرنا بھی شامل ہے۔ بھلا آئینی ترمیم سے بھی کسی ملک نے اپنے ہی اداروں کو کمزور کیا ہے؟ جس سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوں؟ ترمیم ایسے ماحول میں جلد بازی میں لائی گئی جبکہ تاحال پارلیمنٹ بھی نامکمل ہے۔ اتنی ایمرجنسی کیوں؟ آئینی ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کو حکومت وقت تعنیات کرے گی۔ حالانکہ عدلیہ کی آزادی کے پیش نظر پہلے ہی سینیارٹی پر چیف جسٹس کی تعنیاتی کا آئین موجود ہے۔ اس ضمن میں آئینی ترمیم کے خلاف وکلاءتحریک چلانے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ جسکی حمایت بلوچستان بار نے بھی اعلامیہ جاری کردیا ہے۔سپریم کورٹ میں مجوزہ آئینی ترمیم کالعدم کرنے کی درخواست بھی دائر ہو چکی ہے۔ ایم کیو ایم اور جمعیت علماءاسلام ( ف) بھی آئینی ترمیم کا مسودہ نہ ملنے پر حکومت سے خفا ہیں۔مولانا فضل الرحمان اور اختر مینگل بھی اپنے مطالبات منوانے کے تناظر میں مشروط حمایت کے لئے پر تول رہے ہیں۔ تاہم مولانا فضل الرحمان نے کمال دانشمندی سے پارلیمنٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جسے پاکستان تحریک انصاف کی لیڈرشپ سراہا رہی ہے۔ ویسے بھی عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کے تمام تر اختلافات کے باوجود دیرینہ دوستانہ مراسم ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 2002 میں عمران خان نے اس وقت کے وزیر اعظم کے امیدوار مولانا فضل الرحمن کو ووٹ دیا تھا۔ 
عام تاثر پایہ جاتا ہے کہ آئینی ترمیم پاور گیم کا شاخسانہ ہے۔ جس میں عدلیہ کو ایک پاور کوارٹر سے نکال کر دوسرے پاور کوارٹر میں منتقل کیا جارہا ہے۔ ریاست کے اندر ریاست کے تاثر کو بدل کر نظام کے اندر نظام کے تاثر کو تقویت دی جارہی ہے۔بد قسمتی سے پاکستان میں انصاف بکتا ہے۔ لیکن عاقبت ناادیش بھول رہے ہیں کہ آئین پاکستان عوام کی امانت ہے۔ جس میں خیانت کی اجازت دینے کو عوام تیار بلکل نظر نہیں آرہی۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پارلیمنت بالا دست ادارہ ہے۔ لیکن اسکا مطلب ہرگز نہیں کہ وہ آئین سے بھی بالا دست ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نظام کسی شے کا نام نہیں۔ جیسے نظام چلانے والے ہوتے ہیں نظام ویسا ہی ہوتا ہے۔ نظام چلانے والے چور ہوں تو نظام چور ہوتا ہے۔ نظام چلانے والے جمعوریت پسند ہوں تو نظام جمعوری ہوتا ہے۔ نظام چلانے والے آمر ہوں تو نظام آمرانہ ہوتا ہے۔ یہ سوال میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ پاکستان کے نظام کو کیا کہا جائے؟ پہلے ملک جمعوری اور معاشی بحرانوں سے دوچار ہے۔ عام آدمی کا معیار زندگی قابل رحم حد تک نیچھے گر چکا۔ آئی پی پیز کے ساتھ عوام کی حق تلفی پر مبنی معاہدوں، بجلی کے بلوں میں بے شمار ظالمانہ ٹیکسز سے عوام گھریلو سامان بیچنے اور خود کشی کرنے پر مجبور ہے۔ اوپر سے حکومت جلد بازی میں آئینی ترمیم کر کے اداروں کے درمیان بے چینی پیدا کر کے آئینی بحران کھڑا کرنا چاہتی ہے۔ جمعوریت کی پرانی دعویدار پیپلز پارٹی بھی اپنے روایتی اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے انداز کو چھوڑ کر پرو اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بن چکی ہے۔ 
تحریک انصاف اپنے دور حکومت میں اسلام آباد میں 2015 میں ہونے بلدیاتی انتخابات کے حق میں نہ تھی۔ سپریم کورٹ کی مداخلت پر عام آدمی کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ دینے پر مجبور ہوئی۔ اب وہ ایکشن رے پلے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کر رہی ہے۔ یہ بڑی جماعتیں نہیں چاہتی کہ جمعوریت کی نرسری بلدیہ مضبوط ہو۔ جس کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے اندر جمعوریت اور احتساب کا فقدان ہے۔ جب کسی جماعت کے اندر جمعوریت اور احتساب نہ ہو وہ اقتدار میں آجائے تو یہی ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔ عام آدمی کو تمام تر سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کے لئے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر سیاست کو پیسے کی لونڈی بنانے والی اشرافیہ عام آدمی کو صرف اور صرف غلام رکھنا چاہتی ہے۔ سوچ دنیا کے کسی بھی ہدف کو حاصل کرنے کی بنیاد ہے۔ جسکی سب سے بڑی مثال پاکستان خود ہے۔ پاکستان بھی بننے سے پہلے ایک سوچ تھا۔ سوچ نے تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ ایک طویل جدوجہد اور محنتی اور ایماندار قیادت کی بدولت دنیا کا نقشہ بدل گیا۔ آج آئین پاکستان بچانے کے لئے تحریک پاکستان جیسی سوچ کی ضرورت ہے۔ سوچ بدل گئی تو سب کچھ بدل جائےگا۔ اب کسی مسیحا کے انتظار کا وقت گزر چکا ہے۔ کہ وہ مسیحا  آئے گا اور تبدیلی لائے گا۔ وہ مسیحائی اپنے اندر پیدا کرنی ہوگی۔ اپنے زخموں پر خود مرہم رکھنا ہوگا۔ حق بات کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ 
بقول شاعر 
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر 
ہر فرد ہے ملت کے .مقدر کا ستارا
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین

ای پیپر دی نیشن