مصنوعی لکیریں

منظر الحق

Manzarhaque100@gmail.com 

قدیم زمانوں میں دنیا کی ہیئت آسان ہوا کرتی تھی،جغرافیائی سرحدوں و لکیروں کا نام و نشان تک نہ ہوتا تھا اور پہاڑوں ، دریاوں و سمندروں سےملکی علاقہ جات کا تعین ہوا کرتا تھا۔انسانی ذپن نے اپنے عروج و ترقی کا اظہار نقشوں پہ مصنوعی لکیریں کھینچ کر کیا،یہ قبائل کے درمیان فاصلے پیدا کرتیں،دین و مسلک کی آڑ میں نفرتوں کے بیچ بوتیں اور رنگ و نسل کو بنیاد بنا کر ،کدورتوں و رنجشوں کے جھنڈے گاڑتیں۔مصنوعی لکیریں ہر جگہ پاءجاتی ہیں،گھروں سے لے کر دفاتر تک ، مدرسوں و خانقاہوں کی اونچی فصیلوں تک اور کھیل کود کے ہرے بھرے میدانوں میں۔
اب طے یہ کرنا ہے،ان لکیروں کی بنیاد و ابتداءکب،کہاں اور کیسے ہوئی۔ہماری کتاب لوح محفوظ ایک عظیم سانحہ کا ذکر فرماتی ہے ،جس میں قابیل نے اپنے چھوٹے بھاءہابیل دشمنی مول لی ،اس کی وجہ تسمیہ بھاءکا نظرانہ تھا،خدا نے اسے قبول فرمایا اور قابیل کا رد فرمایا۔یہ ایک بھائیوں کے درمیان لکیر کھچ گ،یوسف کے بھائیوں نے اس روایت کو برقرار رکھا۔شاید اس سے پہلے جنت کے باسی،آدم و حوا خدا کے مقرب بندے بنے اور ان کو سجدے سے انکار پر شیطان معتوب ہوا ،اسے پہلی لکیر کہا جا سکتا ہے۔شیطان نے براءکا ٹھیکا لے لیا،وہ طاغوتی طاقتوں کا سربراہ و سرغنہ بن گیا اور اس نے اللہ تعالی کے نیک بہرہ ور بندوں کو راہ حق سے گمراہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔
حق و طاغوت کی لکیریں کھنچ گئیں،خدا و رسولوں کی تعلیمات پر عمل پیرا ،لکیر کے ایک طرف اور شیطان کے چیلے دوسری طرف صف آراء ہو گئے۔یہ تفریق امر ہو ،ساری سچاءو اچھاءکو ایک سمت یکجا کر دیا گیا اور ساری براءو گندگی کو دوسری سمت دھکیل دیا گیا۔فنیا کی تاریخ میں جس عطیم انسان نے کلمہ حق بلند کیا،اس کی تعکیمات کو خدا نے محفوظ کر دیا اور جس بدکردار ملعون نے مغلظات بکیں،ان باتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا اور اس کا نام و نشان محض بدی و شر کی مثال بنا۔
زمانہ آگے بڑھتا چلا گیا،کاشتکاری کو دوام ہوا اور زمین پر لکیریں کھنچ گئیں۔خدا کی بناءزمین اچھی و بری قرار دی جانے لگی، اس کے حصول نے جھگڑے کی ایک بنیاد ڈالی اور قتل و غارت گری قابیل کی ریت،انسانوں نے بخوشی، چند سکوں کے عوض اپنا۔اس نے دوسری کءلکیروں کو جنم دیا،جن میں معاشی کروفر و دنیاوی سربلندی نے، عزت و وقار کا مصنوعی معیار قائم کیا اور نیکی، پارساءو عبودیت کو اپنانے والے بیچارے مسکین تصور کیئے جانے لگے۔اب گھروں کی تعمیرات کا وقت آیا،بڑھ چڑھ کر اونچے اونچے محل تعمیر ہوئے اور تعیشات زندگی سے انھیں لیس کر دیا گیا۔اس لکیر نے دنیا کی نظروں میں، امیر و غریب کی واضح تفریق پیدا کی اور عمارات کا جائے وقوع بھی اس مصنوعی لکیر کا اٹل حصہ بن گیا۔عام افراد ایک لکیر کو عبور کرنے کی سعی میں ساری عمر بھاگتے نظر آئے،جب وہ لکیر عبور کر لی ،تو سب سراب دکھاءدیا اور اپنی بے معنی زندگی پر کف افسوس ملتے رہ گئے۔
اگلا سنگ میل و مرحلہ تعلیم کے حصول نے پیدا کیا،تعلیم زندگی میں بیشمار تبدیلوں کا باعث بنی اور جہلا اس مثبت سوچ و طرز زندگی سے نا آسنا رہ گئے۔یہ لکیر پتھر میں ثبت ہو گئ،دنیا دو حصوں میں بٹ گءاور ایک حصہ ترقی کی راہ پہ گامزن اور دوسرا حصہ تاریکی و گھپ اندھیروں میں مقید۔تعلیم نے دلوں کو منور کر دیا،آگاہی کا راستہ صاف کر دیا اور ترقی و کامرانی قدم چومنے لگی۔جہلا تاریک پستیوں میں ٹپے ٹوئیاں مارت رہے،طاغوتی پردے ان کے دلوں،کانوں و آنکھوں پر پڑے رہے اور وہ پرانی روایتوں میں مقید،گہری کھاءمیں پڑے رہے۔
تعلیم کی لکیر نے دنیا بھر کو روشن کر دیا،اس اہم ترین لکیر نے ہمارے ذہن کھول دیئے اور ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کی برداشت کا مادہ تفویض کیا۔سیاسی عمل کی لکیریں بغض و عناد کا سبب بن سکتی ہیں،ذہنی ارتقائی عمل ،مثبت سوچ اور معیانہ روی کی لکیریں، ذاتی کدورتوں پر حاوی آتی ہیں۔سیاست میں رنگت کا عنصر بھاری رہتا ہے،بس ایک لکیر پڑ جاتی ہے اور اسے اپنی زندگی میں معدودے چند ہی لوگ عبور کر پاتے ہیں۔ہرے رنگ پر مسلمانوں کی دینی جماعتیں قابض ہو گئیں ہیں،لال رنگ اشتراکیت کی بنیاد قرار پایا اور سارے کھلے ذہن ،آزاد منش افراد نے اس لکیر کے پیچھے پناہ لی۔
 دوسری جانب مغرب کی لکیروں نے الگ کھیل تماشہ پیش کیا ، نیلے رنگ کو آزادی و روشن خیالی کا مظہر قرار دیا گیا،لال رنگ قدامت پسندی اور فرسودہ خیالات کا مظہر قرار پایا۔آخر ان لکیروں میں کس نے یہ رنگ بھرے،کیا رنگ بھی سیاست کر سکتے ہیں اور باقی رنگوں کا کیا قصور ،جو انھیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا ہے۔آخر اودے،پیلے، جامنی،سرمءرنگوں سے یہ جانبداری کیوں ،انھیں غیر جانبداری کا پرچم کیوں تھما دیا گیا اور وہ معصوم نہ شکوہ کریں اور نہ شکایت۔

اب ذرا ہم اپنی عام زندگی پر بھی، ایک عمیق نظر ڈالیں اور اس میں پوشیدہ لکیروں کو ڈھونڈ نکالیں۔گھریلو زندگی میں چھوٹے و بڑے،جوان و بزرگ ،عوام و خواص،مرد و عورت ،بھاءو بہن ،ماں و باپ ،نیک و بد،شریف و بدمعاش ،ہنس مکھ و خونخوار ، تند خو اور اسی قسم کی بیشمار لکیروں نے ہمیں قید کر رکھا ہے۔گر کوءبچہ عقل و فہم کی بات کرے،اسے گھاس تک نہیں ڈالی جاتی اور نہ ہی کوءاسے سراہتا ہے۔بزرگ بیوقوف کیوں نہ ہوں،اپنی بزرگی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر،اول فول بک دیتے ہیں اور چھوٹے سر دھنتے ہیں۔مردوں و عورتوں کو الگ الگ لکیروں سے بنائے خانوں میں بند کر دیا گیا ہے،ایک صنف دوسرے کی صفات نہیں اپنا سکتی،ورنہ صنف نازک یا مردانگی کا ٹھپہ لگا دیا جائے گا،باقی عمر اس چوغے کو اتارنے میں صرف کریں۔چند مرد یا عورتیں ان لکیروں سے باہر آ کر سوچتے ہیں،اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی ہمت کرتے ہیں اور اس قسم کا دم خم رکھتے ہیں۔ماں باپ کی لکیر بہت چوڑی ہے،جس ماں نے پتلون پہنے کی جرات کر لی ،وہ مرد مار کہلاءاور جو مرد ذرا کمزور دکھاءدیا،اسے زن مرید کے زمرے میں ڈال کر قید کر دیا۔دونوں لاکھ جتن کر لیں،پر ایک دفعہ جو ٹھپہ لگ گیا،اس لکیر کو مٹانا ناممکن امر ہے اور اسی جنگلے کے پیچھے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ بہن بھاءمذکر مونث کے جال میں پھنسے زندگی کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں،مجال ہے کوءذرا ادھر ادھر قدم رکھے اور ساری دنیا کے سوال و جواب اور عذاب و جھنجال کا مستحق ٹھہرے۔

نیکی و بدی ازل سے چلی آ رہی ہے،ابد تک قائم رہے گی اور ہر شخص اپنے ایک خاص تشخص کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ساری عمر نیک افراد ،ایک معمولی سی غلطی سے بدکردار بنا دیئے جاتے ہیں اور بدمعاش،محض ریاکاری و دکھاوے سے،نیک و پارسا کہلانے لگتے ہیں۔یہی حال احوال مسکراہٹ کے پیکر،ہنس مکھ و ملنسار افراد کا ہے اور کوءایک غلطی زندگی کی کایا پلٹ دیتی ہے۔تند خو اور خونخوار اشخاص دور ہی سے پہچانے جاتے ہیں،ان کی عادات کے چرچے دنیا بھر میں مشہور ہیں اور وہ لاکھ جتن کر لیں،پر انھیں اس خانے سے باہر نہیں آنے دیا جاتا ہے۔
کاروباری و بیوپاری لوگ اپنی بندشوں میں گرفتار رہتے ہیں،کوءقول کا پکا اور کوءکچا،کوءتول میں سخت اور کوءنرم،کوءنرم دل اور کوءسخت گیر۔ان صفات کی مشہوری ہو جاتی ہے،ان کا کاروبار متاثر ہوتا ہے اور لاکھ کوششوں کے باوجود،ان لکیروں کو وہ مٹا نہیں سکتے ہیں۔بسا اوقات یہ اطوار خاندانی وراثت کا حصہ بن جاتے ہیں،بچوں و بڑوں میں کہیں سچاءنظر آتی ہے یا کہیں ان کے کلام میں جھوٹ کی آمیزش دکھاءدیتی ہے۔بول تول میں نرمی و اخلاقی بلندی نمایاں ہوتی ہے،یا کمی بیشی سے ناجئز پیسہ کماتے ہیں اور خود کو بدی کی لکیروں میں قید کر دیتے ہیں۔
الغرض لکیریں انسان کا مقدر نہیں،یہ مصنوعی آڑھی ترچھی ککیریں ہم خود اپنے اردگرد کھینچ لیتے ہیں اور پھر اللہ کی رضا کو اس میں شامل کر دیتے ہیان۔مولا منصف ہے،وہ ذرے ذرے کا حساب کرے گا اور جو ہم اپنے ہاتھوں سے آگے بھیجتے ہیں،انہی لکیروں سے ہماری کسوٹی کا مقدمہ لکھا جائے گا۔ہم لکیروں کو مٹانے کے اہل ہیں،نءلکیریں بنا سکتے ہیں اور مصنوعی لکیروں کے جال کو توڑ کر ،نءلکیروں سے اپنی قسمت کا فیصلہ تقدیر کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

مصنوعی لکیریں

منظر الحق Manzarhaque100@gmail.com  قدیم زمانوں میں دنیا کی ہیئت آسان ہوا کرتی تھی،جغرافیائی سرحدوں و لکیروں کا نام و نشان تک نہ ہوتا ...