جمعة المبارک 15 ربیع الاول 1446ھ ‘ 20 ستمبر 2024

عذرگناہ بدتر از گناہ۔۔۔موسیقی کی وجہ سے قومی ترانے پر بیٹھے رہے‘ افغان قونصلر
 کیا ان معصوم بچوں نے کبھی کسی ملک کا ترانہ نہیں سنا کیا یہ بہرے ہیں۔اور پھر انڈیا میں افغان سفارت کار کیسے ان کے ترانے پر با ادب کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کا ترانہ تو ساز و آواز کے ساتھ ایک بھجن معلوم ہوتا ہے۔ سفارتی عملہ کسی بھی ملک میں اپنے ملک کا چہرہ ہوتا ہے‘ اسے دوسرے کے نظام اور آئین و قانون کی پاسداری کرنا ہوتی ہے۔ جو نہیں کرتا‘ اسے دور سے واپس گھر کا راستہ دکھانا ضروری ہے۔ گزشتہ روز افغان قونصلر نے پشاور میں سیرت النبی کانفرس کی سرکاری تقریب میں وزیراعلیٰ خیبر پی کے کی دعوت پر شرکت کی تو انہیں آداب محفل کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب کسی تقریب میں قومی ترانہ بجتا ہے تو سب اسکے احترام میں کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسا سب جگہ ہوتا ہے۔ مگر افغان قونصلر کی ڈھٹائی دیکھیں کہ پاکستان کے افغانستان پر احسانات اور ہمدردی کی درخشان روایات کو بھول کر جو غیراخلاقی حرکت کی‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عام افغان شہری ہو یا سرکاری افسر یا کھلاڑی‘ ان کو ہم سے خدا واسطے کا بیر ہے۔۔ اگر افغان قونصلر نے یہی لچ تلنا تھا تو سیدھے سبھاﺅ سیرت کانفرنس میں شرکت ہی نہ کرتے۔ اگر آگئے تھے تو یہ رنگ بازی کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ اب علی امین گنڈاپور تو ہر وقت سیخ پا نظر آتے ہیں۔ افغانستان جا کر بات چیت کی کہانی سناتے ہیں۔ کیا وہ اپنے دلپسند ملک کے قونصلر کو سمجھا نہیں سکتے تھے۔ وہ ”پپو یار تنگ نہ کر‘ محفل کو بے رنگ نہ کر“ کا جملہ ہی کہہ دیتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ افغان حکومت کو کسی اصول کی پرواہ نہیں
۔ اب حکومت بھی غیرت کا مظاہرہ کرے۔ اور کچھ نہیں تو اسے واپس جانے کا مشورہ دے۔ یہ پاکستانیوں کے عزت و وقار کا معاملہ ہے۔
٭....٭....٭
زیادتی کا شکار پولیو ورکر کو شوہر نے گھر سے نکال دیا‘ قتل کی دھمکیوں پر تین افراد گرفتار۔ 
ہماری معزز عدل گستری کو اگر سیاسی کیسوں سے‘ سیاست دانوں کی چپقلش سے، فضول مقدمہ بازی سے فراغت ملے تو ذرا ان مسائل پر بھی توجہ دے جن کا تعلق عوام الناس سے ہے۔ سندھ میں پولیو کے حفاظتی قطرے پلانے والی خاتون ورکر پر جو قیامت ٹوٹی ہے‘ اس پر تو کوئی ایکشن لے۔ ریاست ہو یا عدالت‘ اس خاتون کو یوں لاوارث نہ چھوڑے جسے اسکے شوہر نے اب گھر سے نکال دیا اور رشتہ دار قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ریاست نے تو پھر کچھ ایکشن لیا ہے۔ علاقہ کے اعلیٰ سرکاری افسر اور پولیس آفیسر معطل ہو چکے ہیں۔ اب عدالت زیادتی کے ملزم کو اور دھمکیاں دینے والوں کو ذرا قانون کی طاقت کا مزہ چکھائے کہ پاکستان کے عوام لاوارث نہیں۔ اگر عدالتیں سیاست دانوں کیلئے مائی باپ کا کردار اچھے طریقے سے ادا کر سکتی ہیں تو ان بے چارے عوام سے سوتیلی ماں والا سلوک کیوں؟ انہیں بھی بروقت انصاف کے پھل کا مزہ چکھایا جائے۔ آخر سب پھل اشرافیہ کے صحن میں ہی کیوں گریں اور پتھر بے چارے عام آدمی کے سرپر ہی کیوں برسیں۔ میڈیا پر یہ مسئلہ اجاگر ہونے کے بعد اب سول سوسائٹی بھی اس بارے میں احتجاج کرتی نظر آرہی ہے۔ اپنی جان اور عزت خطرے میں ڈال کر قوم کے مستقبل کی خاطر تکالیف برداشت کرنے والے یہ ورکر عزت و احترام کے مستحق ہوتے ہیں۔ مگر جب لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں ان پر ہاتھ اٹھایا جائے‘ سرعام ان کی تذلیل کی جائےگی تو کون یہ خدمت انجام دینے کی حامی بھرے گا۔ پہلے جان کا خطرہ تھا‘ اب عزت و آبرو بھی خطرے میں نظر آنے لگی ہے۔ جس کے بعد کون اس کام کی انجام دہی کیلئے تیار ہوگا‘ بقول غالب:
جس کو ہو جان و دل عزیز تیری گلی جائے کیوں
پی آئی اے کی پرواز پشاور کی بجائے کراچی پہنچ گئی‘ مسافروں کا احتجاج۔
ایسی غلطی کو غلطی نہیں‘ اگر حسن اتفاق ھی مان لیں تو کیا فرق پڑے گا۔ شکوہ کرنے کے بجائے مسافروں کو تو شکر گزار ہونا چاہیے کہ انکی مفت میں اتنی سیر ہو گئی یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ خدا جانے پائلٹ کو کیا سوجھی کہ اس نے یہ حرکت کی۔ یہ جہاز ہے کوئی بس‘ رکشہ یا کار نہیں کہ غلط یوٹرن لیا یا سڑک پر مڑ گئے تو راستہ لمبا ہو گیا یا غلط ہو گیا۔ یہ تو فضائی سفر ہے۔ اس میں یہ ناممکن نہیں تو آسان بھی نہیں۔ کجا پشاور اور کجا کراچی۔ اب کئی گھنٹوں سے وہ مسافر خوار اور بیزار ہو رہے ہونگے‘ کئی تو ضروری کام سے جانے والے تھے‘ وہ بھی رہ گئے۔ پی آئی اے والوں نے کون سا انکی اشک شوئی کرنی ہے۔ غلطی یا معذرت کرنی اور انکے قیام و طعام کا اہتمام کرنا ہے‘ وہ تو الٹا شور مچانے والوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر خاموش کراتے رہے ہوں گے کہ کیا ہوا‘ کونسی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ ویسے بھی تو پرواز میں تاخیر ہو ہی جاتی ہے‘ وہ نہ سہی یہ غلطی ہی سہی‘ اب کیا ہو سکتا ہے۔ خدا جانے پائلٹ کو اونگھ آگئی تھی یا وہ راستہ بھول گیا تھا۔ ہو سکتا ہے اس نے جان بوجھ کر غصے میں ایسا کیا ہو۔ لوگ کہتے ہیں ایسی حماقتیں دراصل پی آئی اے کو بدنام کرکے اسے کوڑیوں کے دام فروخت کرنے کی سازش ہے۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ حکومت اسکی تحقیقات کرائے تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے ہاں تحقیقات کا مطلب بھی یہی ہے کہ معاملے پر مٹی پاﺅ۔ آج تک کسی تحقیقات کا کیا نتیجہ نکلا جو اب نکلے گا۔ یہاں سب کچھ ایسا ہی ہے‘ یونہی چلتا آیا ہے اور نجانے کب تک چلتا رہے گا۔ کیا باکمال لوگوں کی بے مثال سروس ہوتی تھی‘ پی آئی اے جسے ہم نے تباہ کردیا‘ غیروں سے کوئی کیا گلہ کرے‘ جب اپنے ہی قاتل ہوں‘ لٹیرے ہوں۔
مقبوضہ کشمیر میں نام نہادالیکشن ڈرامے کی پہلی قسط۔
کہتے ہیں خوش فہمی کا شکار لوگ اسی مغالطے میں جا رہے ہیں۔ اس وقت بھارت کو یہ خوش فہمی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اس بار ہونیوالے ریاستی اسمبلی کے الیکشنز میں ووٹروں کی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے آئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد کشمیری عوام کے جذبات برہم ہیں اور وہاں کی سیاسی جماعتیں خصوصی حیثیت اور آباد کاری کے منصوبے کے خلاف اپنی الیکشن مہم چلارہی ہیں۔ ان سب کشمیری جماعتوں کا مطالبہ یہی ہے کہ 370 اور 35۔اے کو بحال کیا جائے۔ یہی وہاں کے ووٹروں کا بھی مطالبہ ہے۔ دوسری طرف انتہاءپسند بی جے پی بھی مقبوضہ کشمیر میں اپنے قدم جمانا چاہتی ہے۔ اسکی راہ بھی روکنا ہوگی۔ بی جے پی سے نفرت کی وجہ سے وہاں کے ووٹر باہر نکلے اور ایسی سیاسی جماعتوں کی حمایت کی جو خصوصی حیثیت کی بحالی کا نعرہ لگا کر سامنے آئیں۔ اسکے باوجود عوام کی بڑی تعداد نے اس الیکشن ڈرامے سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ دوسری طرف کشمیریوں کی اصل قیادت تو جیلوں میں بند ہے‘ انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔ وہ پہلے ہی الیکشن ڈرامے کے خلاف ہیں اور کشمیریوں کی اکثریت الیکشن ڈرامے سے دور رہتی ہے۔ مگر کیا کریں‘ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسوں کا۔ جو نت نئے اداکاروں کے ساتھ چل کر کانگرس اور بی جے پی کے رچائے الیکشن ڈرامے میں حصہ لیتے نظر آتے ہیں۔ عوام ان سب سے باخبر ہیں۔ یہ بھارتی حکمرانوں کے ٹاﺅٹ ہیں جو کرسی کیلئے اپنے ایمان تک کا سودا کرلیتے ہیں۔ اس بار حیران کن بات یہ ہے کہ کانگریس نے کامیاب ہونے کی صورت میں دفعہ 370 اور 35 اے مکمل طور پر دوبارہ بحال کرنے کا نعرہ لگایا ہے۔ یہ بہت پرکشش ثابت ہو سکتا ہے۔ مگر اسکے باوجود علاقائی جماعتیں بھی پورا زور لگا رہی ہیں کہ میدان مار لیں۔ 

ای پیپر دی نیشن