اللہ تعالیٰ نے انسان کو بااحسن تقویم پیدا فرمایا۔ اسے اشرف المخلوقات بنایا اور اس پر بے پایاں روحانی اور مادی عنایات فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ظاہری وباطنی صلاحیتوں کے سبب انسان کائنات کی تسخیر میں تاحال مگن رہاہے۔ لیکن یہی انسان ہر ہر گھڑی اللہ تعالیٰ کی عنایات اور دستگیری کا اس حد تک محتاج ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر کرم کے بغیر اس کی کوئی ہستی ہی نہیں۔ اگر اس کائنات کی تسخیر کرنے والے انسان کو چند ساعتوں کےلئے ہوا سے یا پانی سے یاکسی ایسی ہی اور نعمت سے محروم کردیا جائے۔ اگر رحمن ورحیم کی نظرکرم ہر ہرآن اسے سہارا نہ دیئے رکھے تو اسکی ہستی ہی مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائے۔ انسان کی زندگی تو بس سانس کی آمد و رفت پرموقوف ہے۔ جس طرح انسان مادی طور پر اللہ تعالیٰ کا اس حد تک محتاج ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اسے پیدا نہ فرماتے تو وہ عدم سے وجود میں نہ آتا۔اسی طرح اس سے کہیں زیادہ یہی انسان روحانی طور پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا محتاج ہے۔ سب سے نمایاں حقیقت جو انسان کی زندگی سے(بلکہ کائنات کی ہرشے سے) واضح ہوجاتی ہے وہ اسکی محتاجی اور نیازمندی ہے۔ تضرع، عجز،تذلل اور خشوع وخضوع کے ساتھ اس محتاجگی کے اظہارکانام دعاہے۔ دعاکا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے حضور جوکچھ خیروبھلائی ہے اس کی طرف رغبت کرنا اور عاجزی کے ساتھ اس کے سامنے بھیک مانگنا۔
نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے(دعاہی عبادت ہے) اور دعاعبادت کا مغز ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عبادت بغیر دعاکے برقرار نہیں رہ سکتی۔ اس طرح کہ انسان بغیر مغزکے قائم نہیں رہ سکتا۔ جس طرح مغز انسان کے جسم کا اہم ترین حصہ ہے اسی طرح دعا بھی عبادت کا جزو عظیم اور اصل جان ہے۔ تمام عبادتوں میں سے ایک دعاہی ایسی عبادت ہے جس کےلئے کوئی جگہ، دن یا وقت مقرر نہیں بلکہ ہرلمحہ ہرگھڑی مانگنے کی اجازت ہے۔
سیرت النبی پر ایک نظر ڈالیں۔ لگتاہے کہ آپ کی حیات طیبہ کا کوئی لمحہ ایسا نہ تھاجو دعا سے خالی گزرا ہو۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صحیح احادیث میں ثابت شدہ دعا?ں کی تعداد سات سو کے لگ بھگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں اہل ایمان کو مختلف واقعات کے حوالے سے ستر سے زائد دعائیں سکھائی ہیں اس سے دعاکی اہمیت کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتاہے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر کے ساتھ ہلتے ہیں“۔
چنانچہ یہ بات طے ہوئی کہ عبادت کی اصل بنیاد ہی دعاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول نے جن جن عبادات کوفرض قرار دیا مثلاً نماز روزہ وحج اور زکوٰة۔ ان کا بیشتر حصہ دعاﺅں پرمشتمل ہے۔فرائض کے علاوہ واجبات اورنوافل میں بھی دعائیں ہی دعائیں ہیں۔ حضور اکرمﷺ کی زندگی کاہرسانس ذکر ودعاپرمعمور تھاکیونکہ رسول اللہ نے فرمایا۔اللہ کے نزدیک دعاسے زیادہ کوئی چیز عزت والی نہیں۔سوال نہ کرنے والے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں۔
زندگی کی ہرضرورت کو پوراکرنے کےلئے ہم اسباب و وسائل ڈھونڈتے ہیں ہم مختلف اشیاءکو ان کی صفات مخصوصہ کی وجہ سے استعمال میں لاتے ہیں۔ سردی لگ رہی ہو تو آگ کا استعمال کرتے ہیں اور پیاس ہو تو پانی پیتے ہیں لیکن ہمارا ایمان ہے کہ آگ میں گرمی کی صفت اور پانی میں پیاس بجھانے کی صفت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ ہے۔ اگر وہ چاہے تو آگ اور پانی کو ان صفات سے محروم کردے۔جب تک وہ چاہے گا آگ میں گرمی اور پانی میں پیاس بجھانے کی صفت باقی رہے گی۔ تو معلوم ہواکہ دراصل سردی آگ سے دور نہ ہوئی بلکہ آگ کو پیداکرنے کرنے والے کی رحمت سے دور ہوئی پیاس پانی نے نہیں بجھائی بلکہ پانی کو پیدا کرنے والے نے بجھائی۔ آگ اور پانی کے استعمال سے کوئی ممانعت نہیں، ممانعت آگ اور پانی پر بھروسہ کرنے سے ہے۔ اسباب کی نفی نہیں بلکہ اسباب پر بھروسہ کرنے کی نفی مطلوب ہے۔
ہمارا ایمان اسباب پرنہیں بلکہ اسباب کو پیداکرنے والے پرہونا چاہیے۔ اس طرح جب ہم اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ (کائنات میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی تصرف واختیار رکھنے والانہیں) تو اسباب سے پہلے مسبب یعنی اللہ تعالیٰ کو کیوں نہ پکارا جائے۔ رزق کی تلاش میں ہمارا پہلا قدم رزاق مطلق کے سامنے بھیک کے ہاتھ پھیلانا کیوں نہ ہو۔ صحت وتندرستی کی تلاش میں ڈاکٹروں کے ہاں جانے کی ممانعت نہیں لیکن اس سے پہلے شافی مطلق ڈاکٹروں کے خالق اور ادویات میں شفائ کی تاثیرڈالنے والے سے کیوں نہ رجوع کیاجائے۔ حکایت ہے کہ ایک بار محمودغزنوی نے ایک چھوٹی سی نمائش لگائی اور اس میں طرح طرح کی قیمتیں چیزیں رکھ دیں اوریہ اعلان کیاکہ جو شخص جس پر ہاتھ رکھ دے گا۔ وہ اس کی ملکیت ہوجائے گی یہ سنتے ہی حاضرین اپنی اپنی پسند کی چیزکی طرف لپکے۔ مگر ایاز نے نعرہ لگایا کہ شاہ اپنے وعدے پر قائم رہے اور یہ کہتے ہوئے اس نے محمودغزنوی کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ایاز نے چیزوں کی طرف توجہ نہ کی بلکہ چیزوں کے مالک کو اپنا بنالیا۔ دعامانگنے والے کا رویہ بالکل وہی ہوتاہے جو ایاز کا تھا۔ وہ وسائل کی طرف نہیں بلکہ وسائل کو پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرتاہے۔ وہ رزق کی طرف نہیں رزاق کی طرف ، مخلوق کی طرف نہیں، خالق کی طرف متوجہ ہوتاہے۔