اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان گزشتہ چند برسوں سے شدید معاشی بحران کا شکار چلا آرہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ پاکستان پر موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات اور اس کی وجہ سے غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہیاں ہیں۔ جس سے نہ صرف پاکستان میں زراعت کو نقصان پہنچا بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں سیلابی ریلوں کی زد میں آکر سڑکیں، پل اور ریلوے لائنیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں،ان کی تعمیر نو کا آغاز ہونے سے پہلے ہی اگلے برس کی مون سون بارشوں کا نیا سلسلہ مزید تباہیوں کے ساتھ آن پہنچتا ہے۔ ان حالات میں معیشت پر پڑنے والا دباو¿ منہ زور مہنگائی کی صورت میں عوام الناس کا جو حال کرتا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ایسے میں معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے آئی ایم ایف سے قرض کا حصول بے حد ضروری تھا۔ تاہم آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے قرض پروگرام کو زیر غور لانے کیلئے مزید ٹیکسوں اور عوام کو دی جانے والی سبسڈی کی مد میں حکومت کے سامنے کچھ ایسے مطالبات رکھے جن پر عملدآمد کی راہ میں ہمارے طبقہ خواص پر مشتمل اشرافیہ ہمیشہ رکاوٹ بنی رہی جو ہر طرح کے ٹیکسوں کے علاوہ اپنے غیر ضروری اخراجات اور اللوں تللوں کا بوجھ عوام الناس اور تنخواہ دار طبقے پر ڈالنے کے عادی ہیں۔ جبکہ تاجروں کی اکثریت، بڑے زمیندار اور رئیل اسٹیٹ سے اربوں روپے کمانے والے اپنے منافع سے ٹیکسوں کی صورت حکومت کو کچھ بھی دینے سے انکاری رہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ تفصیلی بات چیت جولائی کے مہینہ میں مکمل ہوچکی تھی۔ جس میں آئی ایم ایف کی طرف سے دی گئی شرائط پر عملدرآمد کی تحریری یقین دہانی کے بعد 7ارب ڈالر کے نئے قرض کی حتمی منظوری آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ میں دیے جانے کے بعد قرض کی پہلی قسط ادا کردی جاتی۔ مگر ملک میں اول تو بعض بااثر طبقات کی طرف سے ٹیکس کے نفاذ کے خلاف دکھائی نہ دینے والی مزاحمت کی وجہ سے آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ پاکستان کیلئے قرض کی منظوری موخرکرتا رہا، دوسرا دوست ممالک سے 2ارب ڈالر کی گارنٹی بھی آڑے آتی رہی۔ آخر کار پاک فوج کے سپہ سالار جنرل آصف منیر اور دوست ممالک کی کوششوں سے یہ مشکل مرحلہ بھی طے کر لیا گیا جس کے بعد آئی ایم ایف نے 25ستمبر کو ایگزیکٹو بورڈ کے ایجنڈے میں پاکستان کیلئے قرض پروگرام کو شامل کرنے کا عندیہ دے دیا۔ یہ خبر ملتے ہی اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سود کے حوالے سے پالیسی ریٹ میں 2فیصد کمی کا اعلان کردیا۔ جس کے نتیجے میں شرح سود 19.5 سے کم ہوکر 17.5فیصد پر آگئی۔ اسٹیٹ بینک کے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے ملک میں اقتصادی ماہرین نے کہاکہ سود کی شرح میں کمی کے فیصلے سے کاروباری طبقہ کا اعتماد بحال ہوگا اورملک میں کاروبار کو وسعت ملے گی تو لازمی طور پر مہنگائی میں بھی کمی آئے گی۔
پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں ویسے ہی نیچے آرہی ہیں۔ ڈالر کی شرح تبادلہ بڑی حد تک مستحکم ہے۔ عوام بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سے بے حال تھے۔ حکومت اس حوالے سے مختلف تجاویز زیر غور لارہی ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کو بجلی کے ٹیرف میں کیسے اور کس حد تک ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی موسم گرما اختتام کے قریب ہے۔ سردیوں کا آغاز ہوتے ہی عوام پر بجلی بلوں کا بوجھ بڑی حدتک کم ہوجائے گا۔ گو اس کمی میں حکومت کا کوئی کمال نہیں لیکن حکمران جانتے ہیں کہ اگر آنے والے گرم موسم تک حکومت کی طرف سے بجلی کے فی یونٹ کمی کے سلسلے میں کوئی فیصلہ نہ کیاگیا تو عوام کا ردعمل انتہائی شدید ہوگا۔ حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ معیشت کی بہتری کیلئے اس کی کوشش مہنگی بجلی کی وجہ سے عوام کے احتجاج کی نذرہوجائے۔ ان حالات میں ملک کے اندر سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ اس کیلئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ سیاست کی بنیاد پر پیداہونے والی باہمی تلخیوں کو کم کر یں۔ویسے بھی معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام کا ہونا بے حد ضروری ہے۔
آخر میں پنجاب کے اندر حالیہ اچھی گورننس کا ذکر بے حد ضروری ہے جس میں پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز کی انتھک کوششوں کا بہت عمل دخل ہے۔ وہ صرف تعمیرو ترقی اور نت نئے منصوبوں کو بروئے کار لانے میں ہی مصروف نہیں بلکہ امن و امان کے مسائل پر بھی خاتون وزیراعلیٰ نے گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ صوبے میں کہیں بھی کوئی بڑا جرم سرزد ہو یا کوئی حادثہ پیش آجائے تو خاتون ہونے کے باوجود مریم نواز کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ از خود متاثرین کی دادرسی کیلئے موقع پر پہنچیں۔ خاص طور پر خواتین اور بچوں سے جڑے ہوئے مسائل میں ان کی دلچسپی قابل تحسین ہے جس کی اس سے قبل پنجاب میں مثال نہیں ملتی۔ ورنہ اس سے پہلے اس بات کا کوئی تصور نہیں تھا کہ طالبات کو الیکٹرک بائیک دی جائیں تاکہ وہ شہر کے اندر اپنی سفری ضروریات کیلئے گھر کے کسی مرد کے بغیر ہی کالج اور یونیورسٹی تک جاسکیں۔ بازار میں خریداری کرسکیں۔ اس مہم کا مثبت پہلو یہ ہے پنجاب کے بڑے شہروں میں بہت سی خواتین نے الیکٹرک موٹر بائیک کا ضرورت مند خواتین کیلئے سواری کے طور پر استعمال شروع کردیا ہے جس سے انہیں اچھی خاصی آمدن ہوجاتی ہے یوں انہیں اپنے ذاتی اخراجات کیلئے والد یا بھائی کی طرف نہیں دیکھنا پڑتا۔