چونڈہ بھارتی ٹینکوں کا قبرستان کیسے بنا

 چونڈہ کے سیکڑ ہر ہندوستان کا محاذ پسندیدہ اور اہم محاذ تھا۔ پاکستانی فوج کے جوانوں نے اسلحہ بارود سے نہیں اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر ہندوستان فوج اور ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔ ہندوستان کی اس سطح پر نقصان اور تباہی کو دیکھ کر بیرون ممالک سے آئے ہوئے صحافی بھی حیران اور پریشان ہوئے۔ پاکستانی مسلح افواج کے شانہ بشانہ تحصیل پسرور کے لوگوں نے بھی اپنی افواج کے ساتھ بڑھ چڑھ کر دشمن کی جارحیت کا مقابلہ کیا اور دشمن کو دکھایا کہ اہلیان پسرور کو روند کر پاکستان میں داخل ہونا اتنا آسان نہیں۔ دشمن ٹینکوں کی ایک بہت بڑی تعداد لے کر سبز پیر موڑ معر اج کے درمیان اور تحصیل ظفر وال کے مختلف دیہات سے اندر گھس آیا جسے پھلورہ کے مقام پر پاکستانی قوم نے وہ سبق سکھایا کہ اس کی آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی۔
 پاکستان نیوی :- ستمبر 1965 میں نیوی کی جنگی سرگرمیاں بھی دیگر دفاعی اداروں کی طرح قابل فخر رہیں۔ اعلان جنگ ہونے کے ساتھ بحری یونٹس کو متحرک کیا اور اپنے اپنے ہدف کی طرف روانہ کیا گیا۔ کراچی بندرگاہ کے دفاع کے ساتھ ساتھ ساحلی پٹی پر پٹرولنگ شروع کرائی گئی۔ پاکستان کے بحری تجارتی روٹس کی حفاظت بھی پاکستان بحریہ کی ذمہ داریوں میں شامل تھی۔ اس لیے سمندری تجارت کو بحال رکھنے کے لیے گہرے سمندروں میں بھی یونٹس بھجوائے گئے۔ یہ امر تسلی بخش ہے کہ پوری جنگ کے دوران پاکستان کا سامان تجارت لانے ،لے جانے والے بحری جہاز بلا روک ٹوک اپنا سفر کرتے رہے۔اس کے علاوہ ہندوستانی بحریہ کو بندرگاہوں سے باہر تک نہ آنے دیا۔
 پاکستان نیوی کی کامیابی کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ ہندوستان کے تجارتی جہاز سرس وتی اور دیگر تو کتنے عرصے تک پاکستان میں زیر حراست و حفاظت کراچی کی بندرگاہوں میں رہے۔سات ستمبر کا دن پاکستان کی فتح اور کامیابیوں کا دن تھا۔
پاکستان نیوی کا بحری بیڑا جس میں پاکستان کی واحد آ ب دوز پی این ایس غازی بھی شامل تھی، ہندوستان کے ساحلی مستقر دوارکا پر حملہ کے لیے روانہ ہوئی۔ اس قلعے پر نصب ریڈار ہمارے پاک فضائیہ کی آ پر یشنز میں ایک رکاوٹ تھا مذکورہ فلیٹ صرف 20 منٹ تک حملہ آور رہا ،توپوں کے دہانے کھلے اور چند منٹ میں دوار کا تباہ ہو چکا تھا۔ پی این ایس غازی کا خوف ہندوستان کی نیوی پر اس طرح غالب تھا کہ ہندوستانی فلیٹ بندر گاہوں سے باہر آنے کی جرا¿ت نہ کر سکا۔ ہندوستانی جہاز تلوار کوپاکستانی بیڑے کا سراغ لگانے کے لیے بھیجا گیا مگر وہ بھی غازی کے خوف سے کسی اور طرف نکل گیا۔
 پاک فضائیہ کے ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان جیسے قابل فخر سپوتوں اور کمانڈروں کی جنگی حکمت عملی اور فوجی ضرورتوں کے پیش نظر تجویز کردہ نصاب کے مطابق پاک فضائیہ نے اپنے دشمن کے خلاف ہوا باز گھوڑوں کو تیار کر رکھا تھا جیسا کہ مسلمانوں کو اپنے دشمن کے خلاف تیار رہنے کا حکم ہے۔ سات ستمبر کو شاہین اپنے اپنے مجوزہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دشمن پر جھپٹ پڑے۔ایک طرف سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم جیسے سپوت نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہازوں کو مار گرایا تو دوسری طرف سکوارڈن لیڈر سرفراز رفیقی اور سکوارڈن لیڈر منیر الدین اور علاو¿ الدین جیسے شہیدوں نے بھی ثابت کر دیا کہ حرمت وطن کی خاطر ان کی جانوں کا نذرانہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔ پاکستان کے غازی اور مجاہد ہوا بازوں نے ہندوستان کے جنگی ہوائی اڈوں کو اس طرح نقصان پہنچایا کہ کھنڈرات بنا دیا۔پاک فضائیہ نے میدان جنگ میں اپنی کارکردگی سے ثابت کر دیا کہ وہ فرمان قائد کی پاسداری ،کامل ایمان اور قلیل تعداد کے باوجود کسی بھی بڑے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔
 پاکستانی شہری :- 1965 کی جنگ کا غیر جانبداری اور غیر جذباتی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بڑے سرکش اور خونخوار شکار کو پاکستان میں چھوٹے سے جال میں آسانی سے قید کر لیا۔ سب کچھ قائدا اعظم کے بتائے ہوئے اصول ایمان اتحاد نظم پر عمل کرنے سے حاصل ہوا کسی بھی زاویے نگاہ سے دیکھیں تو یہی اصول 1965 کی جنگ میں پاکستان کی کامیابی کا مرکز اور محور تھے۔ پاکستانی قوم کی طرف سے ملی یکجہتی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ہر طرح کا فرق مٹا کر اختلافات بھلا کر متحد ہو کر دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کا بے مثال عملی مظاہرہ تھا ۔
1965 کی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی اس جنگ میں ثابت ہوا کہ جنگیں ریاستیں عوام اور فوج متحدہ ہو کر ہی لڑی اور جیتی جا سکتی ہیں۔ پاکستانی قوم نے اپنے ملک سے محبت اور مسلح افواج کی پیشہ وارانہ مہارت اور جان نثاری کے جرا¿ت مندانہ جذبے نے مل کر نا ممکن کو ممکن کر دکھایا۔

ای پیپر دی نیشن

مصنوعی لکیریں

منظر الحق Manzarhaque100@gmail.com  قدیم زمانوں میں دنیا کی ہیئت آسان ہوا کرتی تھی،جغرافیائی سرحدوں و لکیروں کا نام و نشان تک نہ ہوتا ...