”2050میں آبادی اور ہماری تیاریاں“

Sep 20, 2024

مسرت قیوم

ایک انتہائی اہم رپورٹ جو اخبارات کی زینت ضرور بنی مگر ہماری دانستہ ڈنگ ٹپاو¿ پالیسی مانند گم ہوگئی ۔ نہ کِسی ”اہم نظر“ سے گزری نہ ”بے حداہم“ ٹوکری میں رکھنے کی سعادت حاصل کر پائی۔ ادارہ شماریات کی ساتویں ڈیجٹیل مردم شماری کے مطابق پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح دنیا سمیت خطے میں سب سے زیادہ ریکارڈ ہوئی۔ موجودہ رفتار کے مطابق ”2050“تک پاکستانی آبادی دوگنا ہونے کا خدشہ ۔یہاں مقیم افغانیوں کی تعداد ”19لاکھ“ سے زائد ہے جبکہ دیگر مذاہب ۔ قومیتوں سے تعلق رکھنے والے غیرمُلکیوں کی تعداد ”ایک لاکھ 72 “ ہزار ہے۔ سرکاری رپورٹ کے اعداد شمار کہتے ہیں کہ ”24کروڑ 14لاکھ“ آبادی ہے جبکہ یقینی حدتک اندازہ ہے کہ آبادی ”30 کروڑ“ سے تجاوز کر چکی ہے جب حکومتی حلقے ”18کروڑ“ بتاتے تھے تب کے کالمز میں ”25 کروڑ“ کا نمبر دیا تھا جو ازاں بعد مردم شماری سچ ثابت ہوا۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق اضافہ کی سالانہ رفتار” 2.55فیصد“ہے۔ موجودہ آبادی کے ساتھ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑاملک بن گیا ہے ۔ چلئیے اِس میدان میں سہی۔ ترقی تو ہے ناں۔ موجودہ حالات اور آبادی بڑھنے کے بعد کی صورتحال ۔ ہماری کتنی تیاری ہے ؟؟ آبادی تو ہر لمحہ بڑھ رہی تھی اور ہے پر اب حالات دشوار ہیں۔گنجائش نہیں رہی۔ 
ایک انسان کو آگے بڑھنے کے لیے تعلیم اور زندہ رہنے کے لیے خوراک لازمی چاہیے اِسی طرح ایک صحت مند شخص ہی کار آمد شہری بن سکتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ آبادی اور دستیاب تعلیمی ۔ طبی سہولیات کا اجمالی جائزہ ۔ پورے ملک میں تمام اقسام کے رجسٹرڈ سکولز کی تعداد ”313,418“ ہے۔ رجسٹرڈ کالجز ”3ہزار“ ہیں اور یونیورسٹیز ”200“ سے اُوپر ہیں ۔ رپورٹ کےمطابق اس وقت 1201 ہسپتال موجود ہیں جن میں بنیادی ہیلتھ کے 5518 یونٹ۔ دیہی علاقوں میں 683۔ ڈسپنسری کی تعداد 5802۔ گائنی اور بچوں کے 731اور ٹی بی کے 347سنٹر موجود ہیں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے مطابق اس وقت رجسٹر ڈاکٹرز کی تعداد 274,994 ہیں جس کے آبادی کے ساتھ تناسب دیکھا جائے تو وہ 1.084 بنتا ہے یعنی ایک ہزار افراد کے لیے ایک ڈاکٹر میسر ہے ۔ البتہ شہری علاقوں میں ڈاکٹروں کی بڑی تعداد پریکٹس کرنا چاہتی ہے اور دیہی علاقے ڈاکٹروں سے خال خال ہونے کے باعث وہاں اتائی ڈاکٹروں کی بھر مار ہے۔ زیادہ تر علاقوں میں کمپاو¿نڈر ہی ڈاکٹر بن کر لاکھوں روپے ماہانہ کما رہے ہیں۔ لمحہ موجود میں 5سے 16سال کے تقریباً اڑھائی کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں۔ لاکھوں ”این جی اوز“ صحت ۔ تعلیم ۔ راشن کی فراہمی میں مصروف عمل ہیں ۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے علاوہ ۔ بڑی تعداد میں نجی تعلیمی ادارے مہنگی ترین مگر نسبتاً معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ہزاروں خیراتی ہسپتال مفت طبی سہولیات کی دستیابی پر مصروف کار ہیں۔ ہر شہر میں درجن بھر جگہوں پر تقریباً ”3وقت“ کا شافی کھانا تقسیم کیا جاتا ہے ۔ حیران کن انکشاف ہے کہ پاکستان کی مجموعی آبادی کا 64فیصد 30سال سے کم عمر کا ہے جبکہ ان میں 29فیصد 15سے29سال پر مشتمل ہے اس طرح پاکستان یوتھ پاپولیشن کے حوالے سے دنیا کا نمبر ون اور 15تا 29 کی عمر کے حوالے سے خطے میں دوسرا بڑا ملک ہے۔
 اس وقت ملک میں بے روز گار اور کام کی تلاش میں سرگرداں افراد کی تعداد 56لاکھ تک پہنچ سکتی ہے جو 2021کے مقابلے میں 15لاکھ زیادہ ہوگی۔ ایسی صورت میں سابقہ اندازوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس برس خواتین میں بے روزگاری کی شرح 11.1فیصد رہے گی جو کہ 2021کے مقابلے میں دو فیصد زیادہ ہے۔
پاکستانی قوم کا دنیا بھر میں ریکارڈ خیرات بانٹنے والی قوم میں شمار ہوتا ہے۔ دلیر دل۔ سخی ہاتھ والی قوم کہلاتی ہے مگر یہ سب نجی شعبہ کی کارکردگی ہے۔ حکومتی حوالوں سے ماضی سے بڑھتی آبادی کی بڑھتی ضروریات۔ مسائل کو کبھی بھی عملی طور پر حل کرنے کی نیت سے نہیں لیا گیا۔ ایک وفاقی ۔ 4صوبائی وزارتوں کے علاوہ (آزاد کشمیر۔شمالی علاقہ جات اِس کے علاوہ ہیں) پاپولیشن کے ”3ادارے ہیں“۔ متوقع چیلنج اور سب کا کام ؟ نوٹس لینا تو بنتا ہے ۔ موجودہ آبادی کے لیے روز گار۔ ملازمتوں کے مواقع انتہائی محدود ہیں اِس صورت میں کہ ”رائٹ سائزنگ کمیٹی“ کی سفارش پر کام ہونے کی صورت میں ہزاروں سرکاری ملازمین متاثر ہونگے عارضی طور پر تو سر پلس پول بھیجا جائے گا پھر بھی فارغ ہونگے تب تک تنخواہ ۔مراعات کا بوجھ تو خزانے پر رہے گا۔ یہ خبر باعثِ پریشانی بنی بقول ”قیصر بنگالی“ کہ تنظیم نو کا سارا بوجھ کم آمدن طبقہ پر ڈالا جا رہا ہے۔
 حکومت اخراجات میں کمی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی جبکہ کچھ اداروں کے بند ہونے سے ”30ارب“ کی بچت ہو سکتی ہے۔ ”70اداروں“ کو بند کرنے کی بجائے صرف ایک کو بند کرنے کا کہا گیا۔ صاف ظاہر ہے عوام پہلے ہی معاشی بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں اتنے وسیع پیمانے پر بے روز گاری پھیلانے کی حکومت متمل نہیں ہو سکتی جبکہ لمحہ موجود میں اتنے بیروز گار ہیں۔ ریلوے میں ”13ہزار“ آسامیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ درست ہے یہ ایسے لوگ تھے جو کئی سالوں سے کام نہیں کر رہے تھے ۔ ایسے اضلاع کے لوگ بھی ہیں جہاں ریلوے نظام ہی نہیں جس بھی ادارے پر نظرڈالیں ۔سیاسی پسند پر سیاسی بھرتی کی چھاپ نمایاں معلوم ہوگی۔ یہ آ ج کل کا واقعہ نہیں ۔ عرصہ دراز سے میرٹ دفن ہو چکا ہے۔ سیاسی وابستگی کی قبر میں۔ 
”حل کیا ہے ؟؟“
زیادہ احسن ہوگا کہ توسیع در توسیع کا باب پکا بند کر دیں۔ ہر شعبہ میں عمر سے زائد والوں پر پابندی لگا دیں۔ وزارتوں ۔ ونگز۔ اتھارٹیز میں ایکسٹرا ۔ ایڈیشنل اسامیاں مکمل طور پر بند کر دیں۔ آبادی میں کمی نہیں کر سکتے یہ تو قدرت کا اپنا نظام ہے ہاں ہم آنے والے لوگوں کے لیے ملکی حالات۔ معاشرت ۔ معیشت کو ضرور پُرامن ۔ پاکیزہ اور مضبوط بنا سکتے ہیں ۔ اِسکے لیے حکومت پہلا قدم خود اُٹھا ئے ۔ واقعی بات 100فیصد درست کہ ایک ”ایٹمی طاقت“ کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ہمیشہ قرضوں تلے دبی رہے۔ وزیر اعظم نے بجا کہا کہ ”روز روز قرض کی درخواستوں سے اہمیت کم ہوتی ہے“۔ مگر یہاں زیادہ کردار کِس فریق کا ہے ؟؟ لازمی بات ہے حکومت ِ وقت کا ۔ ”30کروڑ“ نفوس کے ساتھ اتنا بُرا حال ہے تو تب کیا ہوگا جب آبادی دوگنا ہو جائے گی اور معلوم ہوتا ہے کہ اعلان کردہ وقت سے پہلے ہو جائے گا۔

مزیدخبریں