وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز صاحبہ نے بہت محدود مدت میں مخالفین سے بھی منوا لیا ہے کہ انتہائی مخدوش معاشی حالات کے باوجود ان کی ہر ممکن کوشِش ہے کہ عوام کو جتنا ممکن ہو ریلیف دیا جائے۔ بچوں کو سکولوں میں دودھ مہیا کرنے ، بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے ، بس سروس اور ٹرام شروع کرنے سے لیکر تھانہ کچہری کا کلچر بہتر بنانے تک ایک ایک قدم پر محترمہ وزیراعلی کی نیک نیتی کی عکاسی ہوتی ہے۔
اگرچہ ایک مقامی اخبار کے دفتر پر بیلف کا دھاوا اور قیمتی سامان کی توڑ پھوڑ محترمہ وزیراعلیٰ کی کوشِشوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے جس پر فوری ایکشن لیا جانا چاہیے۔ نگران حکومت کے وزیر اطلاعات عامر میر نے بطور وزیر اطلاعات و ثقافت اپنے اختیارات کا لطف لینے اور سیاسی مخالفوں کو رگڑا دینے کی کوشش کی جبکہ موجودہ وزیر اطلاعات و نشریات عظمیٰ بخاری اپنی اچھی کارکردگی سے محبت اور احترام سمیٹ رہی ہیں۔ یہی کریڈٹ حمزہ شہباز شریف کے میڈیا ایڈوائزر عمران گورایا کو بھی جاتا ہے جس نے میڈیا اور ثقافت کے میدان میں دن رات محنت کرکے نہ صرف پنجاب کے صحافیوں کو حکومتی کارکردگی پر قائل کیا بلکہ فنکاروں کے دلوں میں مسلم لیگ ن کی محبت کے چراغ جلائے۔
اگرچہ محترمہ مریم نواز شریف کی طرف سے سرکاری محکموں کو واضح احکامات ہیں کہ عوام کی خدمت کے کردار کا عملی نمونہ پیش کرتے نظر آئیں۔ لیکن ان تمام ارادوں اور کوششوں کے باوجود حمزہ شہباز شریف کی پنجاب حکومت کے معاملات میں عدم دلچسپی حالات کے سدھار میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اوپر سے کمر توڑ مہنگائی اور اس کے سامنے حکومتی بے بسی عوام کے دلوں سے گِلے اور شِکوے و شکایت سے بھرے جذبات کا ازالہ کرنے میں ابھی تک ناکام ہے۔ اوپر سے اس بار عوام حکومت کو مشکل فیصلوں کا مارجن دینے پر بھی تیار نہیں۔ بھوک اور غربت کے ستائے عوام کے جتنے کڑاکے نکل سکتے تھے بات اس سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ لوگ اپنا کاروبار سمیٹ کر دوسرے ملکوں کو دوڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ تحریک انصاف کے لیے عوام کی ہمدردی اور تحریک انصاف کے چئیرمین کی مقبولیت میں کمی ہوتی بھی نظر نہیں آتی۔ رہ سہہ کے پاکستان میں میاں نوازشریف پر دل و جان فدا کرنے والے ووٹرز اور پنجاب میں میاں شہباز شریف کی طویل المدتی وزیراعلیٰ شپ کے دوران ان کی انتظامی کامیابی کے معترف عوام ہی کو داد دینا پڑتی ہے جو مر تو جائیں گے لیکن مسلم لیگ ن کا دامن ہاتھ سے چھوڑیں گے نہیں۔ یہ ووٹر اور سپورٹر پنجاب میں محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ سے امیدیں لگائے بیٹھا ہے اور وفاق میں میاں شہباز شریف سے توقع رکھتا ہے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت ہو اور حمزہ شہباز شریف کی شہری و دیہی سیاست میں مقبولیت اور اثر و رسوخ کو نظر انداز کر دیا جائے یہ یقینا" بعید از حقیقت ہوگا۔ پنجاب کے عوام مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف کو آج میاں محمد نواز شریف اور شہباز شریف کی طرح شانہ بشانہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
حمزہ شہباز شریف اور مریم نواز شریف کے درمیان دوری کو بھی ایک طرف تو سیاسی مخافین اپنے لیے باعث ِ برکت سمجھتے تو دوسری طرف دونوں کا ووٹ بینک بری طرح پریشان ہے اور اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیا جائے تو ن لیگ کے ووٹرز کی پریشانی کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔ انکے نزدیک وفاق اور صوبہ پنجاب دونوں جگہ شہباز شریف اور مریم نواز کی حکومت دراصل ن لیگ کی حکومت ہے جس کا لیڈر نواز شریف ہے لیکن بدقسمتی سے انہیں یہ پہلے کی طرح کی حکومت ہرگز نہیں لگ رہی جیسا کہ وہ وفاق میں میاں نواز شریف اور پنجاب میں میاں شہباز شریف کی حکومت میں دیکھ چکے ہیں۔ اب انہیں لگتا ہے کہ سب کچھ پہلے جیسا نہیں ہے۔
سیاسی مخالفین کے لیے یقیناً یہ ایک ایسی خلیج کی ابتداءہے جس کے دور رس نتائج نکل سکتے ہیں۔ اگر کل کلاں الیکشن میں بیس فیصد بھی ووٹ بینک اس صورتحال سے مایوس ہوکر گھر میں بیٹھا رہا تو سینتالیس اور پینتالیس والے شور میں ایسا اضافہ ہوگا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے گی۔ پاکستان میں جمہوری حکومتیں ویسے بھی پانچ سال کی مدت پوری نہیں کیا کرتیں۔ ایسے میں اگر آئندہ الیکشن میں حمزہ شہباز شریف کے سپورٹرز نے وفاق میں مریم نواز شریف کو ووٹ نہ ڈالے اور صوبے میں مریم نواز شریف کے ووٹرز نے حمزہ شہباز شریف کو ووٹ نہ ڈالے تو نقصان تو ن لیگ کا ہوگا۔ وہ بھی ایسی صورتحال میں جب تحریک انصاف کا جن بوتل میں بند ہوتا نظر نہیں آتا اور پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی اور موجودہ دور میں بھی پورا پورا حکومتی شیئر لینے کے باوجود فیس سیونگ کرنے میں کامیاب نظر آتی ہے۔ تو کیا یہ بہتر نہیں کہ مشکل ترین حکومتی عہد میں کزنز ایک دوسرے کے عملاً ساتھ کھڑے نظر آئیں۔ یہی وقت ہے کہ پوری فراخدلی سے نہ صرف اپنے ووٹ کو عزت دیں بلکہ مخالف ووٹ کو بھی سر ماتھے پر بٹھایا جائے اور کسی طرح کا امتیازی سلوک نہ رکھنے کی مثال قائم کی جائے۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی تیسری پیڑھی اور میاں محمد نواز شریف کی دوسری پیڑھی اقتدارمیں ہے۔
گویا اگر نسل درنسل خاندانی سیاست اور حکمرانی کرنی ہی ہے تو کم از کم خاندان میں دراڑ تو نہ پڑنے دی جائے۔ جس طرح گھر میں بچے ماں باپ کے درمیان ناچاقی برداشت نہیں کرتے اسی طرح ووٹر بھی نہیں چاہتے کہ ان کے لیڈر ایک دوسرے سے دوری کا شکار ہوں۔ وہ بھی ایسی صورتحال میں جب لیڈرز کے پاس عوام کو تسلی دینے کے سوا کچھ بھی نہ ہو۔ حکومتیں ہمیشہ طویل المدتی ریلیف دینے سے کامیاب ہوا کرتی ہیں نا کہ وقتی اور محدود فائدے دینے سے نیک نامی کما پاتی ہیں۔
یہاں وفاقی نشریاتی ادارے بھی حکومتی کوششوں کو ملیا میٹ کرنے میں پورا پورا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ پی ٹی وی لاہور سینٹر میں بیٹھے کمزور پروگرام مینیجر اور یس باس جنرل مینیجر کی فرائض دہی کا یہ عالم ہے کہ نعت یا منقبت و سلام کے پروگراموں میں بھی میرٹ برقرار رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے جن چند شعراءو ادباءنے حکومت کا مشکور ہونا ہوتا ہے وہ بھی حزب مخالف کے ساتھ جا کھڑے ہوتے ہیں اور وزیراطلاعات کے برائے نام وزیر اطلاعات ہونے کا رونا پیٹنا کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایسے کام ہیں جس کے لیے کسی بجٹ کی نہیں بس سمجھداری ، نیت اور سیاسی بصیرت ہی کافی ہوتی ہے۔ عطاءتارڑ اگر پی ٹی وی کے ان مفت خور افسروں کو میرٹ کا خیال رکھنے کی درخواست کردیں تو ان کی وزارت کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔