خدمت خلق ایک سعادت

چوہدری محمد سرور  
اسلام دین کامل ہے ،یہ عبادات اور معاملات کا حسین مرقع ہے۔دین اسلام میں عبادات اور معاملات کو ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم کردیا گیا ہے ۔ مخلوق خدا کی خدمت کو اللہ کی رضا کا ذریعہ قراردیا گیا ہے ۔ آج ہمارے ملک میں نفسانفسی ، افراتفری، بے رحمی اور خودغرضی کا عالم ہے ۔ ہر طرف لڑائی جھگڑے ہیں ، چھینا جھپٹی ہے ، قتل وغارت ہے۔ آج ہمارا معاشرہ انسانوں کی بجائے حیوانوں کا معاشرہ بنتا جارہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم خدمت خلق ، حقوق العباد کی اہمیت اور انسان کی عزت وتکریم کو بھول چکے ہیں ۔ جائز معاملات میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی مدد اور اعانت کرنے کو خدمتِ خلق کہتے ہیں۔ خدمت ِ خلق ۔۔۔۔۔ یعنی انسانوں سے پیار ومحبت اور ضرورت مند انسانوں کی مدد کے کاموں کی اہمیت وضروت کو ہردور میں تسلیم کیا گیا ہے اور اس کام کو ہر دین ومذہب میں تحسین وتعریف کی نظرسے دیکھا جاتا ہے ۔ جبکہ اسلام نے تو خدمت ِ خلق پر بہت ہی زور دیا ہے ۔یہ اسلئے کہ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو سراپا خیر ورحمت اور خیر خواہی سے عبارت ہے ۔ ضرورت مند انسانوں کی خدمت اس کا طرّۃ امتیازہے،یہی وجہ ہے کہ اس دین کو رحمت، اس کے خالق ومالک کو رحمٰن ورحیم اور اس دین کے نبی کو رحمۃ اللعٰلمین کہا گیاہے۔ 
خدمت ِ خلق اپنے مفہوم میں ایک بہت ہی وسیع معانی ومفہوم رکھتا ہے ۔ خدمت ِ خلق سے مراد جہاں مصیبت زدہ انسانیت کی مدد ہے وہاں یہ عمل ایمان کی روح اور دنیا وآ خرت سنوارنے کا ذریعہ بھی ہے۔ نبی مکرم رسول معظم ؐ سراپا خیر ورحمت اور خدمت ِ خلق کا عملی نمونہ تھے ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن وحدیث میں خدمت انسانیت کو بہترین اخلاق اورعظیم عبادت قراردیا گیا ہے ۔ اس کی تائید وتوثیق میں قرآن مجید کی لاتعداد آیات اور احایث موجود ہیں ۔ سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خدمت خلق کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا ہے ’’ اصلی نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر یقین رکھے اور قیامت کے دن پراور فرشتوں پر اور کتبِ سماویہ پر اور پیغمبروں پر اور وہ شخص مال دیتاہو اللہ کی محبت میں حاجتمند رشتہ داروں کو، نادار مومنوں کو اور دوسرے غریب محتاجوں کو مسافروں کو اور لاچاری میں سوال کرنے والوں کو اور قیدی اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں بھی مال خرچ کرتا ہو ۔
جبکہ رسول ؐکے بے شمار ارشادات گرامی ہیں جن سے خدمت خلق کی اہمیت اور فضیلت واضح ہوتی ہے ۔ آپ ؐ نے فرمایاـ:  تم زمین والوں پر رحم کرو اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے گا ۔ 
تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جس سے لوگوں کو نفع پہنچے ۔ 
قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتاہے ۔ 
اللہ کے کچھ نیک بندے ایسے ہیں جن کو اس نے اپنی خاص نعمتوں سے نوازا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندوں کو اپنے مال سے نفع پہنچائیں اور جب تک وہ اللہ کے بندوں کو نفع پہنچاتے رہیں گے اللہ تعالیٰ بھی انہیں مزید نعمتوں سے نوازتارہے گا اور جب وہ اللہ کے بندوں کو نعمتوں سے محروم کردیں گے تو اللہ بھی ان سے اپنی نعمتیں ختم کر دیتاہے اور ان کی جگہ دوسرے بندوں کو عطا فرما دیتا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو انسانوں پررحم نہیں کرتا-اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتارہتاہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتاہے ۔ 
قرآن مجید اوررسول کریم ؐ کی تعلیمات وارشادات نے ہمیں یہ درس دیا کہ ہم میں بہترین اور سب سے اچھا انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہو ، وہ اپنی ذات سے لوگوں کو فائدہ پہنچائے، کسی کو تکلیف نہ دے، غریبوں، مسکینوں اور عام لوگوں کے دلوں میں خوشیاں بھرے، ان کی زندگی کے لمحات کو رنج و غم سے پاک کرنے کی کوشش کرے ۔ انسان کے ساتھ ہمیشہ ایک سے حالات نہیں رہتے ۔ کبھی خوشی ہے تو کبھی غم ، کسی وقت میں ایک انسان تونگر وغنی ہے تو ممکن ہے وہی انسان کچھ عرصے بعد نان جیوں کیلئے محتاج ہوجائے۔ انسان کے حالات بدلتے رہتے ہیں ۔ شریف اور حلیم انسان وہ ہوتے ہیں جوہر حال میں خوفِ خد ا یاد رکھتے ہیں ۔ دوسروں کے دکھ درد اور مصیبت میں کام آتے ہیں ۔حاصل کلام یہ ہے کہ انسان کے دکھ دردکو بانٹنا جہاں اس کے ساتھ ایک اخلاقی ذمہ داری وہمدردی ہے وہیں اس میں اللہ کو راضی کرنا بھی ہے، کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اللہ کی رضا، اس کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا سبب ہے، کسی بھوکے کو کھانا کھلانا نیکی اور ایمان کی علامت ہے،کیوں کہ دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے جیسا کہ کسی دانشور کا کا یہ فکرانگیزقول بہت مشہور ہے کہ ’’ اپنے لیے تو سب جیتے ہیں صحیح معنوں میں انسان تو وہ ہے جو اللہ کے بندوں اور اپنے بھائیوں کے لیے جیتا ہو’’ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
پاکستان ہمارے لیے گھر کی طرح ہے اس گھر میں رہنے والے اسلامی نقطہ نظر سے ہمارے بھائی ہیں ۔ بھائیوں میں سے کوئی مشکل میں ہو تو اس کی مدد واعانت ہمارا فرض ہے ۔خاص کر ایسے حالات میں کہ جب ملک کی بیشتر آبادی مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں بری طرح پس رہی ہے ۔ ہمارے ملک کے معاشی حالات بے حد پریشان کن ہوچکے ہیں ۔ لوگوں کیلئے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے ۔ لوگ خود کشیاں کررہے ہیں ۔ یوں ہمارے آس پاس ملک بھر میں کروڑوں افراد بنیادی ضروریات زندگی پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ان ناگفتہ بہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ظلمت شب کا شکوہ کرنے کی بجائے ہم میں ہر شخص اپنے حصے کا دیا جلائے ، اپنے وسائل اور استعداد کے مطابق ضرورتمند انسانوں کی مدد کرے اور امن آشتی کے ساتھ معاشرے کوسلامتی کا گہوارہ بنائے۔

ای پیپر دی نیشن