خوانِ رحمت تمام عالم کیلئے یکساں کھلا ہے: ارشاد نبویؐ

مولانا مجیب الرحمن انقلابی
خاتم النبیین حضرت محمد ؐسب سے زیادہ شجاع و بہادر اور سب سے زیادہ سخی تھے، بردباری، قوت برداشت، قدرت پاکر معاف کردینا اور مشکلات و مصائب میں صبر کرناایسے او صاف حمیدہ ہیں کہ جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کی تربیت فرمائی تھی۔ آپ ؐ سب سے زیادہ حیادار تھے، آپ ؐ کی نگاہ کسی کے چہرے پرنہ ٹھہرتی تھی ۔۔۔۔۔حضرت ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ پردہ نشین کنواری عورت سے بھی زیادہ حیادار تھے۔ آپ ؐ سب سے زیادہ عادل، پاک دامن، معاملات میں کھرے اور قول وفعل میں سچے تھے۔
آپ ؐ اپنے ذاتی معاملات میں کسی سے انتقام نہ لیتے تھے یہاں تک کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام ؓ نے کفار کی ایک قوم کے بارے میں بددعا کرنے کیلئے کہا تو آپ ؐ نے فرمایا کہ میں رحمت بن کر آیا ہوں عذاب بن کرنہیں آیا۔۔۔۔۔ آپ ؐ کے دندان مبارک شہید کئے گئے مگر اس وقت بھی آپ ؐ نے ان کیلئے ہدایت و مغفرت کی دعا فرمائی....
ایک مرتبہ کسی نے آپؐ سے سوال کیا کہ کیا آپ کافروں کیلئے بھی ’’خاتم النبیین حضرت محمد ؐ ہیں؟ فرمایا یہ خوانِ رحمت تمام عالم کیلئے یکساں کھلا ہے ۔۔۔۔۔ جب بھی آپ ؐ سے کسی چیز کا سوال کیا جاتا تو فورًا عطا فرما دیتے تھے، جب آپ ؐکو دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ ؐ نے ہمیشہ اس میں آسان کام کو اختیار فرمایا تا کہ امت کیلئے سہولت ہو، آپ ؐنے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا، البتہ اگر مرغوب ہوتا تو تناول فرما لیتے ور نہ چھوڑ دیتے ،شہد اور تمام شیر یں چیزوں کو طبعًا پسند فرماتے تھے۔
حضورؐ اپنے کپڑے مرمّت کر لیتے(پیوندلگالیتے) تھے اپنے گھر والوں کے کاموں میں مدد کرتے اور مریضوں کی عیادت کرتے تھے، جب کوئی شخص آپ ؐکو دعوت دیتا خواہ امیر ہوتا یا مفلس اس کے یہاں تشریف لے جاتے تھے کسی مفلس کو اس کے فقر کی وجہ سے حقیر نہ جانتے تھے اور کسی بڑے سے بڑے بادشاہ سے اس کی مالداری کی وجہ سے مرعوب نہ ہوتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ؐدنیا سے تشریف لے گئے لیکن آپ اور آپ کے گھر والوں نے جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی، آپ ؐ کے گھر والوں پردو دو مہینے مکمل اس طرح گزر جاتے تھے کہ چولھے میں آگ جلانے کی نوبت تک نہ آتی۔
آپ ؐ سواری پراپنے پیچھے اپنے غلام کو سوار کر لیتے تھے ، موٹے کپڑے پہنتے تھے ، سفید کپڑے آپ ؐ کو سب سے زیادہ پسند تھے، آپ ؐ غیض وغضب سے دور اور سب کے ساتھ جلد راضی ہو جاتے تھے۔
ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ جودوسخا کے پیکر تھے، شجاعت و بہادری اور دلیری میں بھی آپ کا مقام سب سے بلند اور معروف ہے نہایت ہی مشکل اور تین مراحل اور مواقع پر جبکہ بڑے بڑے جانبازوں اور بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے آپ ؐ اپنی جگہ ثابت قدم اور برقرار رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت علی ؓ کابیان ہے کہ جب زور کا رَن پڑتا اور جنگ کے شعلے خوب روشن ہوتے اور بھڑک اٹھتے تو ہم حضورؐ کی آڑلیا کرتے تھے۔ حضرت انس ؓ ابھی دس سال کے کمسن بچے تھے کہ ان کی والدہ حضرت ام سلیم ؓ نے ان کو حضورؐ کی خدمت کیلئے ان کے سپرد کر دیا اور حضرت انسؓ شب و روز حضورؐ کی خدمت کرتے ،معصوم عمر اور بے شعور ہونے کی وجہ سے کئی کام بنے کے بجائے بگڑ بھی جاتے لیکن حضورؐ کا ان کو ڈانٹنا تو دور کی بات آپؐ کے چہرہ انور پراس کی وجہ سے  ناگواری کے آثار بھی نہیں آئے، حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ میں نے مسلسل دس سال حضور اقدس ؐ کی خدمت اقدس میں گزارے، اس طویل مدت میں کبھی ایک باربھی میں نے نہیں دیکھا کہ آپ ؐ نے مجلس کے ساتھیوں اور ہم نشینوں کی طرف اپنے پاؤں پھیلائے ہوں ،نہ کبھی دیکھا کہ کسی نے آپ ؐ سے مصافحہ کیا ہو اور آپ ؐ نے پہلے اپنے ہاتھ کھینچ لیے ہوں۔۔۔۔۔ میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا کوئی شخص آپ  سے ملنے آپ ؐکے ساتھ کھڑا ہو، اور آپؐ اس کے پاس سے خود کبھی ہٹ گئے ہوں.... آپؐ برابر کھڑے رہتے جب تک کہ وہ شخص خود ہی نہ ہٹ جاتا۔۔۔۔ اور میں نے جو کام بھی کیا ٹھیک ہو گیا یا خراب کبھی آپ ؐنے یہ نہیں فرمایا کہ تم نے ایسا اور ایسا کیوں کیا، اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ ایسا اور ایسا کیوں نہیں کیا، میں نے بارہا عطر سونگھا ہے اور اچھے سے اچھے عطر کو سونگھا ہے۔ مگر آج تک میں نے حضور اقدس ؐ (کے جسم اطہر اور پسینہ) کی خوشبو سے بہترخوشبو نہیں سونگھی اور آج تک میں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ کسی نے سرگوشی کیلئے آپ ﷺ کی طرف سر جھکایا ہو اور اس شخص کے سر ہٹانے سے پہلے حضور اقدس ؐنے بھی اپنا سر اٹھایا ہو ۔۔۔۔۔۔
حضرت خارجہ بن زید ؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ اپنی مجلس میں سب سے زیادہ باوقار ہوتے، اپنے پاؤں وغیرہ نہ پھیلاتے، بہت زیادہ خاموش رہتے بلاضرورت نہ بولتے، جوشخص نامناسب بات کہتا اس سے رُخ انورپھیر لیتے ، آپ ؐ کی ہنسی مسکراہٹ تھی اور کلام دوٹوک (واضع) نہ فضول نہ ہی کوتاہ، آپ ؐ کے صحابہ کرامؓ کی ہنسی بھی آپ ؐکی توقیر واقتداء میں مسکراہٹ ہی کی حد تک ہوتی (شمائل ترمذی)
خاتم النبیین حضرت محمد ؐ کا اخلاق سب سے زیادہ کشادہ اور اعلی تھا،بدخلقی سے سب سے زیادہ دور تھے، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپؐ کے اخلاق کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ’’ بے شک آپ ؐاخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں‘۔ اُم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ ؐ کا خلق قرآن مجید تھا، لیکن قرآن مجید میں جس قدرمحاسن اخلاق کا ذکر ہے وہ سب آپ ؐ کی ذات اقدس میں پائے جاتے تھے، جس چیز کو قر آن پسند کرتا آپ ؐ بھی اس کو پسند فرماتے اور جس کو قرآن پسند نہ کرتا اس کو آپ ؐ بھی پسند نہ فرماتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے لوگوں کیلئے حضورؐکی ذات کو نمونہ اور مثال قرار دیا ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو حضور اقدسؐ کی سیرت  کو اپنانے اور ’’خاتم النبیین حضرت محمد ؐ ‘‘کے’’ اسوۂ حسنہ‘‘ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔

ای پیپر دی نیشن