اروڑہ کی پریت آتما

Sep 20, 2024

عبداللہ طارق سہیل

حکومت آئینی ترامیم کا وہ پیکج لانے میں ناکام ہو گئی جس کے بارے میں اسے سو فیصد یقین تھا کہ اس کی منظوری کیلئے نمبر پورے ہیں۔ اور نمبر تو پورے ہی تھے لیکن آخری لمحات میں مولانا فضل الرحمن اپنے نمبر لے کر الگ کھڑے ہو گئے۔ اس وقت ان کا یہ بیان سامنے آیا کہ انہیں آئینی پیکج سے اصولی طور پر اتفاق ہے اور وہ ان کی تائید کرتے ہیں لیکن وہ عجلت کے حق میں نہیں ہیں۔ پھر ان کا بیان آیا کہ بعض شقوں سے اختلاف ہے یعنی اصولی تائید والے موقف میں انہوں نے ترمیم کر ڈالی۔ یہ اصولی اتفاق اور پھر جزوی اصولی اتفاق الگ الگ تناظر میں تھے۔ تناظر کی کئی قسمیں ہوتی ہیں مثلاً 73ء کے آئین کا تناظر، حالات حاضرہ کا تناظر، قومی مفاد کا تناظر۔ اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مولانا علم تناظرات کے دور حاضر کے سب سے بڑے عالم ماہر اور سکالر ہیں۔ 
اب ایک اور تناظر کے پیش نظر مولانا کا یہ دھماکہ خیز موقف سامنے آیا ہے کہ وہ حکومتی آئینی پیکج کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ یعنی اصولی اتفاق، جزوی اتفاق، نظریہ غیر ضروری عجلت کے بعد مکمل اصولی عدم اتفاق۔ یہ تیسرا تناظر ہے۔ 
تناظر میں تبدیلی کچھ ایسی حیران کن بات نہیں، مناظر بدل سکتے ہیں تو تناظر بھی بدل سکتے ہیں بلکہ مناظر بدلتے ہیں تو تناظر ازخود بدل جاتے ہیں۔ سیاست ایک مسلسل سفر کا نام ہے۔ سفر میں مناظر ہر آن بدلتے ہیں اور پھر حالاتِ حاضرہ اور ماجرات تناظرہ باہم جڑواں کیفیات کا نام ہے۔ 
______
واپڈا کے ترجمان فیصل واڈوا نے حکومتی ناکامی کو اس کی نالائقی اور نااہلی سے تعبیر کیا ہے۔ واپڈا ڈبلیو والا نہیں ، وی (V) والا یعنی V-PDA اور پورا لکھیں تو VERY POWER DOMAIN AUTHORITYتو واپڈا کے ترجمان نے دراصل پوری حکومت کو نہیں، مسلم لیگ کو نالائق اور نکمّی قرار دیا ہے۔ یعنی دونوں والی مسلم لیگ۔ مطلب یہ نکلا کہ مسلم لیگ (ن) کو آئندہ سے مسلم لیگ ن، ن لکھا جائے۔ سیاسی ارضیات (پولیٹیکل جیالوجی) یعنی سیاسی زمین کے حقائق والے علم کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ بدستور ایک ہی ن والی جماعت ہے، دو نون کی نہیں ہے البتہ نون بدل گیا ہے اور اب ن سے مراد نواز نہیں، نقوی ہے۔ اور نواز والی ن لیگ کی حکومت پنجاب میں ہے، وفاق میں نقوی والی ن لیگ حکمران ہے اور اس ن میں ش بھی شامل ہے۔ اور آئینی پیکج پر ناکامی، نالائقی اور نکمّے پن کا سہرا اسی ن لیگ کو جاتا ہے۔ 
لیجئے، یہ تو چار نون والی ن لیگ ہو گئی۔ 
______
اتحادیوں سے مذاکرات میں نقوی صاحب کے علاوہ تارڑ صاحب بھی شامل تھے۔ وہی تارڑ صاحب جو وزیر قانون ہیں اور جنہوں نے سابقہ حکومت جو عمران حکومت کے خاتمے کے بعد باقی ماندہ مدّت کیلئے آئی تھی، کے دور میں بندیال صاحب، تب کے چیف جسٹس کو ان کے مشکل وقت میں ضروری کمک فراہم کی تھی جس کے بعد ان کے اکھڑتے قدم پھر سے جم گئے تھے اور نتیجے میں نواز شریف کی وطن واپسی میں طویل تاخیر ہو گئی تھی اور جس کے نتیجے میں نواز شریف کی سیاست کو ایسا ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا جس کا ازالہ ابھی تک نہیں ہو سکا اور وہی تارڑ صاحب جنہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ حکومت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو توسیع دینا چاہتی ہے جبکہ قاضی صاحب اس بیان سے پہلے، ایک بھری محفل میں حکومت کو اور تارڑ صاحب کو بتا چکے تھے کہ وہ توسیع لینا چاہتے ہیں نہ لیں گے۔ دی گئی تب بھی نہیں۔ تارڑ صاحب کے اس بیان نے قاضی صاحب کے مخالفوں کو ان کے خلاف ایک زوردار الزامی اور طعنہ جاتی مہم چلانے کا ہتھیار اور موقع فراہم کیا۔ قاضی صاحب پاکستان کے پہلے چیف جسٹس ہیں جو نظریہ ضرورت کے خلاف ہیں۔ چنانچہ نظریہ ضرورت ان کا جانی دشمن بنا ہوا ہے اور اس کا سہرا تارڑ صاحب کے سر ہی جاتا ہے۔ 
گویا مسلم لیگ ن کا نیا نام اپنے اندر تارڑ کی ت بھی رکھتا ہے اور نیا نام اب یوں ہے: مسلم لیگ (ن ، ن ، ن ، ت)۔ واہ کیا شاندار نام ہے۔ یہ تو لمبے نام والی ایک اور جماعت ٹی ٹی پی ٹی آئی پر بھی بازی لے گیا۔ 
______
زیادہ بحث تو حکومتی ناکامی پر ہی ہو رہی ہے لیکن ناکامی کی اس بحث والے صفحے کے آخر میں ایک چھوٹا سا فٹ نوٹ (حاشیہ) بھی اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے اور وہ حاشیہ یہ ہے کہ کیا نواز شریف کی سیاست کا دور اپنے اختتام تک پہنچ گیا۔ 
وہ سیاست جسے مشرف، راحیل شریف، قمر باجوہ، فیض نیٹ ورک ختم کرنے میں ناکام رہے، وہ مسلم لیگ (ن، ن، ن، ت) کی وجہ سے ختم ہو گیا یا ختم ہو رہا ہے۔ کیا واقعی؟۔ 
کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بہرحال نواز شریف کی عدم فعالیت غیر ضروری اور طویل استراحت اور یخ بستہ لب بستی اس تاثر کو تقویت دے رہی ہے۔ 
______
پختونخواہ کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ لگتا ہے، علی امین گنڈاپور کسی پاکستانی صوبے کے نہیں، افغان صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں۔ 
کنڈی صاحب کو جو لگتا ہے، باقی اہل وطن کو بھی کچھ کچھ ویسا ہی لگتا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ علی امین گنڈا پور ، اپنی دانست میں، یہی سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستانی ریاست کے کسی یونٹ کے سربراہ نہیں ہیں بلکہ سرحد پار کی اقلیم میں کوئی منصب دار ہیں۔ 
اسی منصب دار کی حیثیت میں وہ پنجاب کو بار بار للکارتے ہیں کہ پنجابیو! میں بینڈ باجہ بارات لے کر آ رہا ہوں، تیار ہو جائو، روکا تو سقوط ڈھاکہ کی تاریخ دہرا دوں گا۔ 
اس بیان سے تو منصب دار کی حیثیت بھی واضح ہو گئی۔ وہ خود کو جگجیت سنگھ اروڑا کی ’’پریت آتما ‘‘ تو نہیں سمجھ بیٹھے؟
______
اسرائیل نے دوسرے دن اور بھی چونکا دینے والے سائبر حملے لبنان کی حزب اللہ پر کئے۔ واکی ٹاکی، وائرلیس، گھریلو الیکٹرانک اپلائنسز، سولر پینل اڑا دئیے، لاسلکی شعاعوں سے چلتی کاروں اور کارخانوں میں آگ بھڑک اٹھی۔ حزب اللہ کا مواصلاتی اور دفاعی نظام معطل اور مفلوج ہو کے رہ گیا۔ 
اصل مشکل ایران کیلئے کھڑی ہوئی۔ ایران کا شام پر مکمل اور لبنان پر جزوی کنٹرول ہے اور یہ کنٹرول سو فیصد حزب اللہ کا مرہون منت ہے۔ اگر حزب اللہ مفلوج ہوتی ہے تو یقیناً یہ کنٹرول بھی ڈھیلا پڑے گا۔ ایران کو اسرائیل کیخلاف کڑی کارروائی کرنا ہو گی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ اپنی سرزمین سے حملے کرتا ہے تو بے اثر رہیں گے جیسا کہ ماضی قریب میں کئے جانے والے دونوں حملے بے اثر رہے۔ 95 فیصد میزائل اور ڈرون اسرائیل نے اپنی سرزمین پر پہنچنے ہی نہیں دئیے۔ ضروری ہے کہ وہ نزدیک سے حملے کرے اور اس مقصد کیلئے وہ کئی برس سے جنوبی شام میں اپنے فوجی اڈے بنا رہا ہے تاکہ میزائل اور ڈرون وغیرہ وہاں منتقل کر کے اسرائیل پر نزدیک سے حملے کرے۔ نزدیک سے آنے والے ڈرون اور راکٹ گرانا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن وہ جو بھی خفیہ اڈہ بناتا ہے، اسرائیل کو اس کی مخبری ہو جاتی ہے اور وہ اسے تباہ کر دیتا ہے۔ پچھلے تین سال میں ایران کے سو سے زیادہ اڈے تباہ ہوئیاور سینکڑوں افسر اور جوان ان حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔ کچھ علاج اس کا بھی…!

مزیدخبریں