پشاور (بیورو رپورٹ) اعلیٰ سکیورٹی حکام نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کا فیصلہ ریاست اور سیاسی قیادت کا ہوتا ہے لیکن ماضی کے مذاکرات کے تجربے کے پیش نظر خوارج سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ البتہ افغانستان کی عبوری حکومت سے خوارج کی حوالگی کے حوالے سے بات چیت کی جا سکتی ہے۔ ان حکام نے کہا کہ زیر سماعت ہونے کی وجہ سے وہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے معاملہ پر تبصرہ نہیں کریں گے تاہم سامنے آنے والے شواہد کی بنیاد پر وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بعض سیاسی عناصر کی ایماء کام کر رہے تھے جس کے لئے ان کا کورٹ مارشل ہو رہا ہے۔ پشاور میں ایک غیر رسمی نشست کے دوران حکام نے کہا کہ مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کی قربانیوں کے نتیجہ میں آج ملک بھر میں کوئی نو گو ایریا نہیں رہا۔ بنیادی طور پر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے امن و امان کے قیام کے ذمہ دار ہیں جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مخصوص حالات میں پاک فوج کو سول انتظامیہ کی معاونت کے لئے بلاتی ہیں۔ فوج دہشت گردی کا خاتمہ کرکے وہاں کا کنٹرول مقامی انتظامیہ کے حوالے کر دیتی ہے۔ جس طرح ہٹلر نے جرمنی کی فوج کو نازی فوج بنا کر اسے سیاسی سوچ کے تحت چلایا اور مخالفین کیخلاف کارروائی کی اس طرح بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی بھارتی فوج میں بی جے پی کے حامی افسروں کو ترقیاں دے کر بھارتی فوج کو سیاسی بنا رہے ہیں اور پاکستانی فوج کے ساتھ بھی ایسا ہی کرنے کی واردات کی گئی۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید ذمہ دار عہدے پر بیٹھ کر مخصوص سیاسی جماعت کی سوچ کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ ان حکام نے کہا کہ پاک فوج خالصتاً پروفیشنلزم اور میرٹ پر یقین رکھتی ہے جسے کسی صورت سیاسی نہیں بنایا جاسکتا۔ فوج کا حکومت میں برسراقتدار سیاسی جماعت سے غیر سیاسی تعلق ہوتا ہے، ملک کی تمام سیاسی جماعتیں قابل احترام ہیں۔ سکیورٹی حکام نے کہا کہ افغانستان میں ایک درجن سے زیادہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں، دہشت گرد افغانستان سے آکر حملے کرتے ہیں۔ ماضی میں ایک سیاسی جماعت نے فسادیوں سے بات چیت کی۔ بعض لوگ اب بھی ایسا ہی کہہ رہے ہیں تاہم پچھلی بات چیت کے تجربہ سے یہ سبق ملا ہے کہ فتنہ الخوارج سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ دہشت گردوں کیخلاف روزانہ سو سے زیادہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کررہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر صورت جیتیں گے۔ انہوں نے کہا کہ لکی مروت میں جرائم پیشہ گروہ سرگرم عمل ہے۔ سیکورٹی ادارے جب ان کریمنل گینگز کیخلاف کارروائی کرتے ہیں تو وہ مظاہرے کرواتے ہیں۔ خیبر پی کے حکومت کی خواہش اور آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت لکی مروت، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں فوج تعینات ہیں، فوج کا ان علاقوں میں تعینات رہنے کا کوئی شوق نہیں ہے، اگر صوبائی حکومت ان علاقوں میں فوج نہیں چاہتی تو آج ہی ان علاقوں سے فوج کو نکال دیں گے، امن و امان کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہوتی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت اور بنوں میں امن و امان حالات صوبائی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو گئے تھے۔ ان علاقوں میں حکومت اور پولیس مفلوج ہوئی جس کے بعد فوج کو تعینات کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ صوبائی حکومت نے امن و امان کے قیام کیلئے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو تعینات کرنے کا مطالبہ کیا۔ امید ہے خیبرپی کے کے جنوبی اضلاع میں امن جلد بحال ہوگا۔ سیکورٹی ادارے جب بھی دہشتگروں کو پکڑتے ہیں، عدالتیں عدم ثبوت کا کہہ کر چھوڑ دیتی ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کریمنل جسٹس سسٹم کو ٹھیک اور قانون کے نفاذ کو یقینی بنانا ہوگا۔