اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے) وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ سپیکر ایاز صادق نے پارلیمان کی بالادستی کے لئے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا، مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے نے بہت سے سوالات کو جنم دیا۔ کسی پارٹی میں شامل ہونے والا رکن دوبارہ کسی دوسری جماعت میں کیسے شامل ہو سکتا ہے؟۔ کسی بھی ادارے کو آئین کی من پسند تشریح کا حق حاصل نہیں، آئین میں قانون سازی اور ترامیم کا اختیار صرف پارلیمان کے پاس ہے۔ جمعرات کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے خط کے حوالے سے حکومت کا موقف عوام تک پہنچنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ہمیشہ سپیکر کی کرسی کے ساتھ انصاف کیا اور ایوان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اچھا رویہ رکھا، ان کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ کسی بھی رکن اسمبلی کی حق تلفی نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے ارکان کے حوالے سے جب قرارداد قومی اسمبلی میں لائی گئی تو اس پر سپیکر نے رولنگ دی اور نہ صرف ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے بلکہ ارکان کے حقوق کے تحفظ کے لئے کمیٹی بھی تشکیل دی۔ انہوں نے کہا کہ سپیکر کا کردار ہمیشہ پارلیمان کی بالادستی اور اپنے ممبران کے حقوق کے تحفظ کے لئے بہت اچھا رہا ہے اور سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ سپیکر قومی اسمبلی کے فیصلوں کی تائید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج پارلیمان کی بالادستی کے لئے سپیکر نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا ہے جو پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ جب آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی باری آئی تو کہا گیا کہ ووٹ کاسٹ کیا جائے گا لیکن گنا نہیں جائے گا، اس کے ذریعے حمزہ شہباز شریف کی پنجاب میں حکومت کو ختم کر دیا گیا، لوگوں کو ڈی سیٹ کیا گیا اور ملک میں ضمنی انتخابات کروائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے اپنے خط میں بالکل درست کہا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 جس میں ترمیم کی گئی ہے، میں پہلے سے یہ رول موجود تھا کہ آزاد امیدوار 48 گھنٹے کے اندر کسی نہ کسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔ غلطی تحریک انصاف سے ہوئی تھی، تحریک انصاف کے مبینہ ممبران کو چاہئے تھا کہ وہ کسی ایسی جماعت میں شمولیت اختیار کرتے جس کا وجود پارلیمان میں موجود ہوتا لیکن انہوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی جس کا ایوان میں وجود ہی نہیں تھا اور پھر ایک فیصلے کے ذریعے انہیں یہ حق دے دیا گیا کہ آپ تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ آزاد امیدوار مخصوص مدت کے اندر کسی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں، اگر وہ کسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوتے تو وہ آزاد ہی تصور کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جن ارکان نے سنی اتحاد کونسل جوائن کی، یہ کیسے ممکن ہے کہ انہیں تحریک انصاف میں دوبارہ شامل ہونے کی اجازت دے دی جائے، کیا یہ فلور کراسنگ نہیں ہے؟۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے ارکان کی پارٹی کیسے تبدیل کرائی جا سکتی، حلف نامہ بھی دے چکے۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح اپنی منشاء کے مطابق کر دی جاتی ہے اور اس میں پارلیمان کی بالادستی تک کا خیال نہیں رکھا جاتا اور جب مخصوص نشستوں کا فیصلہ آتا ہے تو اس میں آزاد امیدواروں سے کہا جاتا ہے کہ آپ تحریک انصاف کے رکن ہیں۔ جو لوگ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے ان کے بیان حلفی منسوخ کر کے انہیں کہا گیا کہ آپ تحریک انصاف کے رکن ہیں اور تحریک انصاف جوائن کرنے کیلئے آزاد ہیں۔ عوام نے اپنے منتخب نمائندوں کو پارلیمان میں اس لئے بھیجا کہ وہ قانون سازی کر سکیں، انہیں اس حق سے کوئی محروم نہیں کر سکتا۔